جامع مسجد فرقان آباد گھٹ میں امام کے فرائض انجام دینے والے جناب شیخ عبدالحفیظ صاحب نے سورہ القصص کی آیات 11 تا 16 پر ایک نہایت بصیرت افروز درس دیا۔ اس درس میں، انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی زندگی کے اہم واقعات اور اللہ تعالیٰ کی بے مثال تدبیر کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ یہ آیات اس وقت کی منظرکشی کرتی ہیں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیل کے دریا میں بہا دیا گیا تھا اور ان کی ماں کا دل بے قرار تھا۔ یہ درس ہمیں ایمان، توکل اور اللہ کے وعدوں پر یقین کی گہرائیوں سے روشناس کراتا ہے۔
والدہ موسیٰ علیہ السلام اور بہن کا کردار
درس کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ، ام موسیٰ نے اپنے لخت جگر کو صندوق میں بند کر کے دریائے نیل کے سپرد کر دیا تھا۔ اس وقت ان کا دل شدتِ بے قراری سے لبریز تھا، قریب تھا کہ وہ اس راز کو ظاہر کر دیتیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مضبوطی عطا کی تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے رہیں۔ ام موسیٰ نے پھر اپنی بڑی بیٹی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے کہا کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے جائے اور دور سے دیکھتی رہے کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کون اسے پکڑتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کی عمر اس وقت تقریباً 10 یا 12 سال تھی، اور فرعون اور اس کے ساتھی اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ بچہ دراصل کون ہے یا اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اس وقت فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔
اس درس کی مزید گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے، آپ ہمارے آڈیو بیان کو سن سکتے ہیں.
اللہ کی تدبیر
دودھ کی ممانعت اور ماں سے ملاپ :شیخ صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پہلے سے ہی دودھ پلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کر دی تھیں۔ تین دن تک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بھی عورت کا دودھ نہیں پیا۔ اس دوران، ان کی بہن محل کے ارد گرد چلتی رہی اور حالات کا جائزہ لیتی رہی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ بچہ کسی کا دودھ پینے کے لیے تیار نہیں، تو وہ فرعون کے گھر والوں کے قریب گئی اور انہیں پیشکش کی کہ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ بتاؤں جو اس بچے کی پرورش کریں گے اور اس کے خیر خواہ ہوں گے؟ یقیناً فرعون کے گھر والے اس پیشکش سے بہت خوش ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ بھی بچے کے لیے ایک دودھ پلانے والی کی تلاش میں تھے۔ اللہ کی تدبیر سے، ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، وہ غمگین نہ ہوں، اور وہ جان جائیں کہ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔

شیخ عبدالحفیظ صاحب نے اس واقعے کے ذریعے اس اہم سبق پر زور دیا کہ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اگر ہم اپنے دلوں میں جھانکیں تو اکثر ہماری اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی بنیادی وجہ اللہ کے وعدے پر یقین کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر دکھاتا ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کی والدہ سے کیا گیا وعدہ سچ کر دکھایا، ان کے بیٹے کو واپس ان کی گود میں پہنچا دیا، تاکہ انہیں تسلی ملے، غم دور ہو اور اللہ کے سچے وعدے پر ان کا یقین پختہ ہو۔ ہمیں آج بھی اس سبق کو یاد رکھنا چاہیے: “وعد اللہ حق” – بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ جب ہمارا اللہ کے وعدوں پر یقین کمزور ہوتا ہے، تو ہم رشوت، جھوٹ اور دیگر نافرمانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کی جوانی
حکمت اور علم جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے اور ان کی نشوونما مکمل ہو گئی (تفاسیر کے مطابق 30 یا 33 سال کی عمر میں)، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم اور علم عطا کیا۔ یہاں حکمت اور علم سے مراد دونوں قسم کی تربیت تھی؛ فرعون کے محل میں رہ کر انہیں دنیاوی علوم حاصل ہوئے، اور والدین کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انہیں دینی علم بھی منتقل ہوا، جس میں حضرت یوسف، یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیہ السلام کا علم شامل تھا۔ یوں، حضرت موسیٰ علیہ السلام دونوں جہتوں سے یعنی دنیاوی امور اور حکمرانی کے معاملات میں بھی اور دینی علوم میں بھی مکمل علم اور حکمت کے ساتھ آراستہ ہو گئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔
اس مکمل درس کو دیکھنے کے لیے، آپ دی ڈیون ورڈ کے یوٹیوب چینل پر دستیاب ویڈیو ملاحظہ کر سکتے ہیں
شہر میں داخلہ اور قبطی کا واقعہ
درس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب اس کے باشندے غفلت میں تھے۔ اکثر مفسرین کے مطابق یہ ظہر کے بعد کا وقت تھا جب لوگ دن بھر کی تھکن کے بعد آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے واقف تھے، انہوں نے فرعون سے سفارش کر کے بنی اسرائیل کے لیے ہفتے میں ایک دن کی چھٹی بھی دلوائی تھی۔ شہر میں داخل ہو کر انہوں نے دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے پایا۔ ایک شخص ان کی اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل سے تھا، اور دوسرا ان کے دشمن گروہ یعنی قبطی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔
جو شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا تھا، اس نے اپنے دشمن کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی مدد کے لیے فوراً آگے بڑھے اور قبطی کو ایک گھونسا مارا جس سے اس کی موت ہو گئی۔ اس واقعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلالی پیغمبر اور نہایت طاقتور شخصیت کے مالک تھے۔ فوری طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ “یہ تو شیطان کی حرکت سے ہوا”۔ ان کی نیت قتل کرنے کی نہیں تھی بلکہ ڈرانے دھمکانے کی تھی۔ انہوں نے اس فعل کو شیطان کی اکساہٹ، غصے اور جلد بازی کا نتیجہ قرار دیا۔ فوراً ہی انہوں نے اپنے رب سے دعا کی: “اے میرے رب، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے معاف کر دے۔” اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، انہیں بخش دیا، اور اس فعل پر پردہ ڈال دیا۔ بے شک وہ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔
تحریر: ڈاکٹر توصیف اسلم