موجودہ دنیا بہت ترقی یافتہ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں انسانوں نے اتنی ترقی نہیں کی۔ یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ انسان ترقی کی آخری سرحد پر جا پہنچا ہے۔ اس نے سارے مسائل کا حل تلاش کرلیا ہے۔ معاشی آزادی Economic Liberalization اور کھلے بازار ( Free – market ) کی وجہ سے اقتصادی خوشحالی اپنے عروج پر ہے۔ دنیا میں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی آبادی میں لگا تار تیز رفتار اضافہ ہورہا ہے۔
ہندوستان کے بڑے بڑے تھنک ٹینکس بھی اب اپنی معاشی ترقی کا راگ پورے جوش وخروش سے الاپ رہے ہیں۔ لوگوں کو فخراس بات پر بھی ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے تجارتی گھرانوں نے عالمی سطح پر ایک صنعتی سلطنت (Industrial empire) کی داغ بیل ڈال دی ہے اور اب دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان اب ایک تیزی سے ابھرنے والی معاشی قوت بن چکا ہے۔ صنعتوں، کارخانوں،آئی ٹی سکٹر اور دیگر میدانوں میں روزگار کے زبردست مواقع سامنے آرہے ہیں۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے BPOS اور KPOS کا دھیان ہماری نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر لگا ہوا ہے۔ دانشور طبقہ میٹروسٹیز کی چکا چوند، چوڑی سڑکوں، فلای اوورس، فلک بوس عمارتوں، پارچ ستارا ہوٹلوں، سپر مارکٹس اور شاپنگ مال کو دیکھ کر پھولے نہیں سمارہے ہیں۔
موجودہ دور کی اس ترقی کے سفر پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات تو بلاشبہ ماننی ہوگی کہ اس کے کئی خواص قابل تعریف ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی اس کے بعض دوسرے پہلوؤں کا جائزہ بھی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آج کی سرمایہ دارانہ ترقی نے سارے مسائل کا حل تلاش کرلیا ہے۔ آج کروڑوں لوگوں کے سروں پر چھت نہیں ہے۔ عام آدمی کی دہائی دینے والی ہماری سرکاروں کو فکر ہے تو صرف بڑے بڑے سرمایہ داروں اور Elite Class کی۔
عام آدمی بھوکوں مرے، اسے اس کی کوئی فکر نہیں۔ مارکیٹ اکانومی اور معاشی ترقی کی اندھی دوڑنے چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سرمایہ داروں سے چندا اورملٹی نیشنل کمپنیوں سے کمیشن کھانے والے ہمارے نیتا اور نوکر شاہ اس قدر بے حس اور بے رحم ہو گئے ہیں کہ عام آدمیوں کے مفاد کی انہیں ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے ہمارے حکمراں طبقے کو سفاکیت کی نچلی حدیں چھو لینے میں بھی کوئی باک نہیں ہے۔ آزاد معیشت Free Market Economy کے نتیجے میں بازار اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ اس کے سامنے حکومت اور قانون تک بونے نظر آتے ہیں۔ اچھائی اور برائی، اقتدار ، رجحانات یہاں تک کہ حکومتی پالیسیاں بھی اب مارکیٹ ہی طے کررہی ہے۔
پوری دنیا ایک بازار بن گئی ہے۔ یہاں سب کچھ دھڑلے سے خرید وفروخت ہورہا ہے۔ صرف صابن، شیمپو، نیل، انڈر گارمنٹ، زیورات، پیپسی ، کوک، پزااور برگرہی نہیں بلکہ نظریات بھی بک رہے ہیں۔ لبرل ازم، نیولبرل ازم ، فیمنزم، سیکولرزم، پوسٹ ماڈرنزم، انارکزم سب بکاو ہیں، تعلیم بک رہی ہے، بچوں کی مسکراہٹ بک رہی ہے۔
خاندان کی خوشیاں، عورتوں کا حسن، سب کچھ بک رہا ہے۔ آج مس سٹی، مس کیمپس اور مس ورلڈ کے مقابلے ہورہے ہیں۔ تعلیم کے نام پر کیریرازم بک رہا ہے۔ فکری افلاس خریدی جاری ہے، دانشوری کے نام پر فحاشی بک رہی ہے، آرٹ اور کلچر کے نام پرغلامی خریدی جارہی ہے۔ آزادی کے نام پرنو آبادیاتی نظام فروخت ہورہا ہے۔ معاشی امداد کی روپ میں ورلڈ بینک اور IMF رات دن اسی مشن پر کام کررہے ہیں۔ دہشت گردی بک رہی ہے War on Terror کے نام پر، انسانیت نیلام ہورہی ہے نہ جانے کن کن روپ میں۔ یہی نہیں، دھرم بھی علامتی مذہبیت کے نام پر بکنے لگا ہے۔ من کی شانتی کے لیے یوگ گرو، بابا، سنیاسی، مہاتما، پیر فقیر خوب پیسے اگارہے ہیں۔ مارکیٹ ہمارے گھروں میں گھس گئی ہے۔ ہم صرف خریدار ہیں یا تماش بیں۔
موجودہ زمانے کے اس سرمایہ دارانہ نظریے نے فرد اور سماج پر وہ ظلم ڈھایا ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی نے جس میں سرمایہ کو مرکزی مقام حاصل ہے، خودغرضی اور حسد کی ایسی خونچکاں داستان رقم کی ہے کہ حیوانیت اس پر شرمسار ہو اٹھے۔ عراق پر حملہ اور دواؤں تک کی برآمد پر روک لگادینے کا آخر کیا جواز تھا؟ چھوٹی سطح پر بھی ہم ایسی مثالیں بارہا دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی مطلوبہ فیس نہ ہونے پر علاج سے انکار کر دینا اب ایک عام سی بات ہے۔ بڑے بڑے شہروں کی چکا چوند میں بھی جھونپڑیوں کے دکھ کومحسوس کرنے کی فرصت بھلا کسے ہے؟ نی نسل اور طلبہ بھی اس بیماری کے شکار ہیں۔
اس سرمایہ دارانہ نظر یہ زندگی نے فرد اور سماج کو اخلاقی اور روحانی طور پر بے حس کر دیا ہے۔ چنانچہ ذہنی تناؤ اور خودکشی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اپنی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات کی تکمیل کے لئے لوگ جرائم پرآماده ہورہے ہیں۔ کرپشن، گھپلے، گھوٹالے، معاشی لوٹ کھسوٹ کا تیزی سے بڑھتارحجان، سب کچھ اس سرمایہ دارانہ ذہنیت کی دین ہے۔ سماج کا مستقبل ہماری نوجوان نسل MNC’ s کی ہے دام غلام بنے کے لیے گلا کاٹ مقابلوں میں کچھ اس طرح مگن ہے کہ اماں !فرصت کہاں ہے غور فکر کے لیے۔ اس لیے واضح ہے کہ زندگی کا یہ نظریہ موجودہ زمانے کی ساری خرابیوں کی جڑہے۔
لہذا اس سرمایہ دارانہ نظر یہ زندگی کے خلاف ایک مضبوط اور مدلل آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔معاصر دنیا اور خصوصا طلبہ برادری کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انسانی فطرت سے یہ نظریہ بالکل میل نہیں کھاتا، انسانی زندگی صرف سرمایہ اور پیٹ کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ فلسفہ زندگی، انسانی عظمت اور وقارکے خلاف بھی ہے۔ صحیح فکر، مضبوط کردار، جذبہ خدمت جیسے اوصاف زندگی کی حقیقی کامیابی اور اطمینان قلب کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ نظریہ سوشلزم کی طرح امن اور انصاف کا ماحول بنانے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ انسانی ضروریات میں سب سے اہم ضرورت اخلاقی و روحانی ضرورت کی تکمیل اس نظریہ سے ممکن نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکی نظام دونوں آدھے ادھورے اور انتہا پسندانہ نظام ہیں ۔ اس لیے ان نظریوں پر مبنی جوبھی سماج، سیاسی، معاشی یا تعلیمی نظام ہوگاوہ یک طرفہ اور ادھورا ہی ہوگا۔ چنانچہ دنیا کو ایک متبادل نظام کی ضرورت ہے۔ اسلام آج دنیا کے سامنے سب سے اچھا متبادل ہے۔ اسلام زندگی کے مادی اور روحانی پہلوؤں کے بیچ توازن قائم کرتا ہے۔ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام میں اس بات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا کہ فرد کا مفاد کہاں جاکر ختم ہوتا ہے اور کہاں سے سماج کا مفادشروع ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف اسلام فرد اور سماج کے مفادات کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ انہیں منضبط کر کے ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد ڈالتا ہے۔ اسلام میں تصور توحید کے تحت یہ بات اول نکتہ کے طور پر بتادی جاتی ہے کہ سرمایہ اور سارے وسائل کا مالک کل اس کائنات کا خالق حقیقی ہے۔ انسان کو یہ سب بحیثیت ٹرسٹی بطور امانت ملا ہے۔ پھر تصور آخرت کے تحت وسائل اور سرمایہ کامکمل حساب خدا کے حضور پیش کرنے کی بات بھی اسلام میں بنیادی تصور کی حیثیت سے پائی جاتی ہے۔
اس سے فرد میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث ہونے سے بچاتا ہے۔ یہی نہیں اسلام سماج میں انصاف کا بہت بڑا علمبردار ہے۔ اسلام کی یہ وہ خوبیاں ہیں جو خود موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیےچیلنج ہیں۔ اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کی اندھی دشمنی اور اسے دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کرنے کی گھناونی چالوں کا مطالعہ بھی اسی نظریہ سے کرنا چاہئے۔