اللہ کا نظام اور حضرت موسیٰؑ کی پیدائش

سورۃ القصص (آیات 5-10): اللہ کا نظام اور حضرت موسیٰؑ کی پیدائش

یہ مضمون جناب شیخ عبدالحفیظ صاحب کے جامع مسجد فرقان آباد گھٹ میں دیے گئے بصیرت افروز درس سے ماخوذ ہے، جس میں قرآن پاک کی سورۃ القصص کی آیات 5 سے 10 تک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس درس میں فرعون کے ظلم و ستم، اللہ تعالیٰ کے اٹل ارادے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے جڑے حیرت انگیز واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کے غیر متزلزل نظام کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اس سورت میں خاص طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کیوں بار بار آیا ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام صاحب نے کل کے درس کا حوالہ دیا اور فرعون کی سرکشی کا ذکر کیا۔ فرعون نے ملک مصر کے لوگوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا تھا، خصوصاً بنی اسرائیل کو کمزور ترین طبقہ بنا رکھا تھا اور ان سے ہر طرح کے ذلیل کام لیتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کر دیتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا، جس سے ہزاروں بچے قتل ہوئے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انتہائی سخت ترین حالات میں ایک عظیم فریضہ انجام دینے کے لیے بھیجا، اور یہ قرآن ہمیں اس آئینے میں خود کو دیکھنے کی دعوت دیتا ہے کہ ہم آج کے نسبتاً سازگار حالات میں کیا کر رہے ہیں۔

فرعون کا ظلم اور بنی اسرائیل کی کمزوری

فرعون اپنی رعونت اور اقتدار کی ہوس میں اتنا اندھا ہو چکا تھا کہ اس نے بنی اسرائیل کو، جو کہ مصر میں کمزور کر دیے گئے تھے، اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ وہ ان کے بیٹوں کو بے دردی سے ذبح کر دیتا تھا، کیونکہ اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں یہی بنی اسرائیل اقتدار پر براجمان نہ ہو جائیں، یا کسی ایسی جگہ نہ آ جائیں جہاں اسے ان کے سامنے ہاتھ باندھنے پڑیں۔ وہ انہیں اپنا غلام سمجھتا تھا اور ان سے جو چاہتا سلوک کرتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں یہ اس کے اوپر نہ آ جائیں اور اسے حکم دینے والے نہ بنیں، فرعون نے یہ ظالمانہ اقدامات کر رکھے تھے۔

اللہ کا عظیم ارادہ: کمزوروں کو اقتدار

ان تمام مظالم کے باوجود، اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم ارادہ تھا۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں، ان پر مہربانی کریں جو زمین میں (یعنی ملک مصر میں) کمزور بنا دیے گئے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم انہیں پیشوا بنائیں، رہبر بنائیں تاکہ وہ دنیا کی رہنمائی کریں، اور ہم انہیں وارث بنائیں۔ یعنی فرعون سے اقتدار چھینا جائے اور یہ حکومت بنی اسرائیل کو عطا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارادہ تھا کہ وہ فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو انہی کمزوروں کے ذریعے وہی چیز دکھا دیں جس کا انہیں ڈر تھا، جس کا انہیں خدشہ اور خوف تھا۔

حضرت موسیٰؑ کی ولادت اور والدہ کو وحی

اس کے بعد کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور ان کی والدہ کو بھی یہی خدشہ تھا کہ ان کے بچے کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔ بائبل اور تلمود میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے انہیں تین ماہ تک چھپا کر رکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کو وحی کی، الہام کیا یا اشارہ کیا، جو خواب کی صورت میں یا ایک فرشتے کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں خوف ہو کہ کہیں وہ قتل نہ کر دیے جائیں تو وہ انہیں دریائے نیل میں ڈال دیں۔ ساتھ ہی اللہ نے تسلی دی کہ “نہ ڈرنا اور نہ غم کرنا، بے شک ہم اسے تیری طرف لوٹا دیں گے اور ہم اسے رسولوں میں سے بنائیں گے”۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو لگا کہ راز افشا ہو گیا ہے، ممکن ہے بچے کے رونے کی آواز کسی نے سن لی ہو یا فرعون کی جاسوس عورتوں کو خبر ہو گئی ہو۔ اس عظیم خاتون نے اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے، بچے کو ایک صندوق یا ٹوکری میں بند کر کے دریائے نیل میں بہا دیا۔

فرعون کا ظلم اور اللہ کا پیغام
فرعون کا ظلم اور اللہ کا پیغام

فرعون کے گھر میں پرورش: اللہ کی تدبیر

پھر ہوا یوں کہ فرعون کے گھر والوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا: ” تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم ہو جائے”۔ شیخ صاحب نے وضاحت کی کہ لغت میں اس “لام” کو “لام عاقبت” کہتے ہیں۔ یعنی فرعون کے گھر والوں نے اسے اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ وہ ان کا دشمن بنے، بلکہ وہ تو اسے دوست بنانا چاہتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت، اس کا انجام یہ ہونا تھا کہ وہ ان کا دشمن اور باعث غم بنے۔ یہ اللہ کی ایک تدبیر تھی کہ اس نے اپنے دشمن کے گھر میں اپنے دوست کو پالا۔ فرعون، ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے؛ ایک تو وہ بڑے گنہگار تھے۔ دوسرا، فرعون جو خود کو خدا کہتا تھا، اسے یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ یہی بچہ اس کے تباہی کا باعث بنے گا۔ اسی طرح ہامان، جو بڑا ذہین مشیر سمجھا جاتا تھا، اس کی رائے بھی خطا پر مبنی تھی۔

فرعون کی بیوی کی شفقت

فرعون کی بیوی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر کہا: “یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور آپ کی بھی” اور فرعون سے التجا کی کہ اسے قتل نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایسا محبوب بنایا تھا کہ جو انہیں ایک بار دیکھتا تھا اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ فرعون کی بیوی نے کہا: “ممکن ہے یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں”۔ یہ وہی الفاظ ہیں جو سورہ یوسف میں عزیز مصر نے اپنی بیوی سے یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہے تھے۔ وہ حقیقت حال نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

ماں کا دل اور اللہ پر کامل یقین

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اپنے محبوب بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈالا تو ان کا دل بے قرار ہو گیا۔ وہ قریب تھیں کہ اس راز کو فاش کر دیتیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مضبوطی عطا کی تاکہ وہ اللہ کے وعدے پر یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ یہ اس عظیم والدہ کا اللہ کے وعدے پر یقین تھا جس نے انہیں اس کڑے وقت میں استقامت بخشی۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جیسا کامل یقین عطا فرمائے۔

WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں