Ayurvedic and Unani Tibbia College new delhi

طب یونانی کشمیر میں کیسے آیا۔ مکمل تریخ جانو Unani medicine in Kashmir

 Unani medicine in Kashmir

 Unani medicine in Kashmir

وادی کشمیر جہاں اپنے دلفریب قدرتی مناظر اور آب و ہوا کے لئے غیر معمولی شہرت کی حامل ہے وہیں علم وفنون اور تہذ یب وتمدن کے تعلق سے بھی کشمیر کی ایک تاریخ ہے۔ چنانچہ طب کے تعلق سے بھی کشمیرکا کر دار قابل ذکر ہے۔ بالخصوص طلب یونانی کے فروغ اور ارتقار میں کشمیری اطبا نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ جس کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

طب یونانی کے فروغ میں کشمیر کا کر دار

حالانکہ کشمیرمیں علوم وفنون کے فروغ کاعہد زمیں سلطان زیب العابدین کا دور -1422 1474AD تھا۔ اس زمانے میں طب کو بھی غیر معمولی فروغ ملا اور شری بٹ اور کر پور بٹ جیسے أمور اطبا  پیدا ہوئے ۔لیکن کشمیر میں طب یونانی کا تعارف عبد مغلیہ میں ہوا۔ اس کے بعد کشمیر میں منے بھی حکمراں آۓ سب نے اس فن کی سر پرستی کی جس کی مختصر روداد درج ذیل ہے۔

عہد مغلیہ کے کشمیری  اطبا

مغل بادشاہ جلالالدین محمد اکبر کے حکومت (1556-1606AD) میں طب یونانی کشمیرمیں متعارف ہوئی اور پروان چڑھی ۔ عہد مغلیہ کا پہلا کشمیری طبیب جوطب یونانی میں ماہر ہوا، وخواجہ عبداللہ غازی تھا۔ اس نے طب کی تعلیم دہلی کے ایک قابل طبیب حکیم دانشمند سے حاصل کی تھی۔

 بعد میں عبداللہ نے طب کی فنی اور علمی دونوں طرح سے خدمت کی ۔فنی اعتبار سے اس کی قدیم لٹر یچر  کا بہ کثرت مطالعہ کیا تھا اور پھر موضوع طب پر ایک کتاب” موجزاقصرای” نام سے تحریر کی جو بہت مشہور ہوی۔

شاہجہاں کے دور میں حکیم محد شریف غنائی اورحکیم عبدالرحیم اشائی کی طبی خدمات غیرمعمولی ہیں۔ یہ دونوں بابا مجنون کے شاگر د تھے ۔اس دور کا ایک اور مشہور طبیب عبدالقادر غنائی تھا، اس نے بھی بابا مجنون سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس نے طب نبوی پر ایک عمدہ کتاب تصنیف کی تھی۔ 6

 

اورنگ زیب کے زمانے میں حکیم عنایت اللہ غنائی بھی کافی مشہور ومعروف کشمیری طبیبگزرا ہے ۔ یہ حکیم عبدالقادرغنائی کا فرزندتھا۔ عنایت اللہ غنائی کو نباضی پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی ۔ وہ چہرا  دیکھ کر مرض پہچانے میں مہارت رکھتا تھا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کا کشمیری طبیب

مہاراجہ نجیت سنگھ کا پا یہ تخت لاھور  میں تھا۔ ان کے دربار میں بھی محمد   اعظم نام کی کا  طبیب موجودتھا حکیم محمد  اعظم نہ صرف عربی اور فارسی کا بڑا عالم تھا بلکہ فن طب میں بھی کامل تھا، وہ مریض کا صرف مشاہدہ کر کے مرض بتانے کی قدرت رکھتا تھا۔

وادی کشمیراور یونانی ادویہ

علمی اور فنی خدمات کے علاوہ کشمیر نے یونانی ادویہ مفردہ کی فہرست میں غیرمعمولی اضافہ کیا۔ مشک عنبراور زعفران جیسی سریع الاثر اور افعال ادویہ کی فراہمی کا کشمیر ایک اہم ماخذ ثابت ہوا۔ کشمیر میں پایا جانے والا’’گل بنفشہ کشمیری‘‘طب یونانی کی انتہائی مشہوراور کثیر الاستعال ادویہ میں شمار کیا جا تا ہے۔ غرض کہ کشمیرنے طب یونانی کے فروغ وارتقار میں غیر معمولی تعاون کیا ہے ۔

WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں