مسلمانوں پرقربانی کا حکم
(۱) قربانی کرنا واجب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ ہیں۔
جوشخص وسعت رکھتے ہوئے قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر سے ایک شخص نے پوچھا، کیا قربانی واجب ہے؟ آپ نے جواب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ، اس نے پھر وہی سوال دہرایا ( کیا قربانی واجب ہے ارشادفرمایاتم سجھتے ہو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔
(۲) قربانی قارن پر بھی واجب ہے اور تمتع پر بھی البتہ مفرد پر واجب نہیں اگر وہ اپنے طور پر کر لے تو اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔
(۳) زائرین حرم کے علاوہ عام مسلمانوں پر قربانی واجب ہونے کے لئے دوشرطیں ہیں۔
ایک یہ کہ وہ خوش حال ہو، خوش حال سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس اتنامال و اسباب ہو جو اس کی بنیادی ضرورتوں سے زائد ہواور اگر ان کا حساب لگا یا جاۓ تو یہ بقدر نصاب ہو جاۓ یعنی جس شخص پر صد قہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مقیم ہومسافر پر قربانی واجب نہیں۔
(۴) قربانی صرف اپنی ہی جانب سے واجب ہے نہ بیوی کی طرف سے واجب ہے نہ اولا د کی طرف سے۔
(۵) کسی شخص برقربانی شرعا واجب نہیں تھی ،لیکن اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدلیا ،تو اب اس جانور کی قربانی واجب ہوگئی ۔
(۲) ایک شخص پر قربانی واجب تھی لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے اور وہ کسی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا ،اگر اس نے بکری وغیرہ خرید لی تھی تب تو اس بکری کوزندہ خیرات کر دے اور نہ خریدی ہوتو ایک بکری کی قیمت بھر رقم خیرات کر دے۔
(۷) کسی نے منت اور نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو جاۓ تو قربانی کروں گا پھر خدا کے فضل وکرم سے وہ کام ہوگیا تو چاہے شخص خوش حال ہو یا نا ہو بہر حال اس پر قربانی واجب ہوگئی اور نذر کی قربانی کا حکم یہ ہے کہ اس کا سارا گوشت ،غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کر دیا جاۓ،قربانی کرنے والا خود بھی نہ کھاۓاور نہ خوشحال لوگوں کو کھلاۓ۔
قربانی کے ایام اور وقت
(۱) عیدالاضحی یعنی ذوالحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر ذ والحجہ کی بارہویں تاریخ تک غروب آفتاب سے پہلے تک قربانی کے ایام ہیں ،ان تین ایام میں جب اور جس دن سہولت ہوقر بانی کرنا جائز ہے لیکن قربانی کا سب سے افضل عید الاضحی کا دن ہے پھر گیا رھویں تاریخ اور پھر بارہویں۔
(۲) شہراورقصبات کے باشندوں کے لئے نماز عید سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں جب لوگ نماز سے فارغ ہو جائیں تب قربانی کر لیں البتہ دیہات کے باشندے نماز فجر کے بعد بھی قربانی کر سکتے ہیں۔
(۳) شہر اور قصبات کے باشندے اگر اپنی قربانی کسی دیہات میں کرار ہے ہوں تو ان کے جانوروں کی قربانی دیہات میں فجر کے بعد بھی ہو سکتی ہے اور اگر وہاں نماز عید سے پہلے ہی گوشت آ جاۓ تب بھی یہ قربانی درست ہے۔
(۴)ایام قربانی یعنی ذوالحجہ کی دس تاریخ سے بارہویں تاریخ غروب آفتاب تک جس وقت چاہیں قربانی کر سکتے ہیں ۔ دن میں بھی اور رات میں بھی لیکن افضل یہی ہے کہ شب میں قربانی نہ کی جاۓ ، ہوسکتا ہے کہ کوئی رگ سلیقے سے نہ کٹے یارہ جاۓ اور قربانی درست نہ ہو۔
(۵) قربانی واجب ہونے کی دوشرطیں ہیں مقیم ہونا اور خوش حال ہونا ،اگر کوئی شخص سفر میں ہے اور وہ بارھویں ذوالحجہ کوغروب آفتاب سے پہلے پہلے اپنے وطن پہنچ گیا اور خوش حال ہے تو اس پر قربانی واجب ہو گئی اور اگر وہ مقیم ہے اور نادار ہے لیکن بارہویں ذوالحجہ کو غروب سے پہلے خدا نے اسے مال و دولت سے نواز د یا تو اس پر بھی قربانی واجب ہو گئی ۔
قربانی کے دوسرے مسائل Qurbani ke masail
(۱) قربانی کرتے وقت نیت کازبان سے اظہار کرنا اور ڈ عاپڑ ھناضروری نہیں صرف دل کی نیت اور ارادہ قربانی صحیح ہونے کے لئے کافی ہے،البتہ زبان سے دعاپڑ ھنا بہتر ہے۔
(۲)اپنی قربانی کا اپنے ہی ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے، ہاں اگر کسی وجہ سے خود ذ بح نہ کر سکے تو کم از کم ذبح ہوتے وقت موجود ر ہیں اور خواتین بھی ذبح ہوتے وقت جانور کے پاس موجو در ہیں تو بہتر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے وقت حضرت فاطمہ سے فرمایا: ۔ “فاطمہ ! اٹھواپنی قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ہو اس لئے کہ اس کے ہر قطرۂ خون کے تمہارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
فاطمہ نے کہا یارسول اللہ یہ ہم اہل بیت کے لئے ہی خصوصی کرم ہے یا ہمارے لئے بھی ہے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا۔ ہمارے لئے بھی ہے اور سارے مسلمانوں کے لئے بھی ‘‘
(جمع الفوائد بحواله المزار )
(۳) گائیے ،بھینس وغیرہ کی قربانی میں کئی افراد شریک ہوں تو گوشت کی تقسیم اندازے سے نہ کریں بلکہ سری ، پاۓ اور گر دہ کلیجی وغیرہ سب کو شامل کر کے سات حصے بتائیں اور پھر جس کے جتنے حصے ہوں اس کو دے دیں۔
(۴) قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں ، اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب میں بھی تقیم کر سکتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ کم از کم ایک تہائی تو غرباء اور مساکین میں تقسیم کر یں اور باقی اپنے اور اپنے عزیز واقارب اور دوست احباب کے لئے رکھ لیں لیکن یہ لا زم نہیں ہے کہ ایک تہائی خیرات کیا جاۓ ،ایک تہائی سے کم بھی فقیروں اور غر یوں میں بانٹ دیا جاۓ تو کوئی گناہ نہیں۔
(۵) گائیے ،بھینس اور اونٹ کی قربانی میں کئی افرادشریک ہیں اور وہ آپس میں گوشت تقسیم کرنے کے بجاۓ سب ایک ساتھ ہی فقراء اور مساکین کوتقسیم کر نا چا ہتے ہیں یا پکا کر کھلا نا چاہتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے۔
(۶) قربانی کا گوشت غیرمسلموں کودینا بھی جائز ہے ،البتہ اجرت میں دیناصحیح نہیں ہے۔
(۷ ) قربانی کی کھال بھی کسی حاجت مند کو خیرات میں دی جاسکتی ہے اور اس کو فروخت کر کے رقم بھی خیرات کی جاسکتی ہے ،یہ رقم ان لوگوں کو دینا چاہئے جن کوز کو تہ دی جاتی ہے۔
(۸) قربانی کی کھال کواپنے کام میں لا نا بھی جائز ہے مثلا نماز پڑھنے کے لئے جاۓ نماز بنوائی جاۓ یا ڈول وغیر ہ بنوالیا جائے ۔
(۹) قصاب کو گوشت بنانے کی مزدوری میں گوشت ،کھال یاسری وغیرہ نہ دی جائے بلکہ مز دوری الگ سے دی جائے اور جانور کی سری، کھال وغیر ہ سب خیرات کر دینی چاہئے ۔
(۱۰) جس پر قربانی واجب ہے اس کو تو کرنا ہی ہے جن پر واجب نہیں ہے، ان کو بھی اگر غیر معمولی زحمت نہ ہوتو ضرور قربانی کرنی چاہئے ،البتہ دوسروں سے قرض لے کر قربانی کرنا مناسب نہیں۔