Why the Muslim Ummah is on the decline
Muslim Ummah |
ابراہیم جمال بٹ
زوال کیا ہے؟
زوال ایک ایسا لفظ ہے جس کے سننے سے انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. جب لفظ زوال کی بات کہیں سے سنائی دیتی ہے تو ایک خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ کان کھڑے ہوجاتے ہیں، دل دھڑک اٹھے ہیں اور چلتے ہوئے قدم اچانک رک جاتے ہیں۔ یہ لفظ زوال کااثر ہے، باقی حقیقی زوال کے کیا اثرات پڑتے ہیں اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ جب جب کسی قوم کو زوال نے آگھیرا اس قوم کی کیا حالت ہوگئی، خدا بچائے۔
زوال ایک ایسی دردناک داستان ہے جس کے بیان کرنے میں ہزاروں نہیں لاکھوں صفحات بھی کم پڑ جائیں۔ اس پر لکھنا یا اسے بیان کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے۔ بیان کرو تو ممکن ہے دل کی دھڑکن ہی بند ہو جائے ۔ کسی کاغذ پرلکھو تو پتا نہیں لکھتے لکھتے وہ پھٹ نہ جائے۔ کیوں کہ زوال لفظ ہی ایسا ہے۔ زوال جب بھی کسی قوم کو آیا وہ قوم ہی برباد ہو گئی۔ اس قوم کی پہچان ہی ختم ہوگئی، اس قوم کی جانبازی، بہادری ، شجاعت، مالداری، دنیاداری، اور اونچائی ہی ختم ہوگئی۔ زوال آیا اور سارا کا سارا بہا کے لئے گیا، بس تاریخ کے اوراق پر نام رہ گیا، لکھا بھی گیا تو سنہرے الفاظ سے نہیں بلکہ سیاہی بھرے الفاظ سے، کیوں کہ زوال نہ روشنی ہے اور کوئی چمکدار چیز۔ زوال نام ہے اندھیرے کا، زوال نام ہے تباہی کا، زوال نام ہے بربادی کا۔
آپکو یہ پڑھنا پسند آیگا👇
زوال کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
اس پر اگر دیکھا اور سوچا جائے تو لاکھوں نہیں کروڑوں صفحات لکھنے کے لیے کم پڑ جائیں ۔ کیوں کہ زوال کا سبب نہیں ہوتا بلکہ اس کے اسباب ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک چیز سے نہیں، اچانک ہی نہیں، بلکہ اس طرح آجاتا ہے کہ انسان سوچتے ہی رہ جاتا ہے۔ قوموں کے قوموں میں زوال آیا، مگر کسی کو فلاں فلاں اعمال کی وجہ سے آیا اور کسی کے دوسرے اعمال کی وجہ سے۔ غرض زوال آتا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک لمبی مدت کی اپنی بنائی ہوئی کہانی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی حرکت کرنے سے زوال نہیں آتا، بلکہ زوال کے آثار آہستہ آہستہ نمودار ہوتے ہیں ۔
زوال کے اسباب اگر ہمیں معلوم کرنے ہوں تو تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو گا کسی مخصوص قوم کی تاریخ کا مطالع نہیں، بلکہ کسی بھی قوم کی اپنی بنائی ہوئی تاریخ پڑھئے زوال کی تعبیر اور زوال کے اسباب خود بخود سامنے آجائیں گے۔ اب زوال کا علاج کیسے کیا جائے؟ اس سے بچنے کی کیا کیا ترکیبیں اختیار کی جائیں۔ یہ اصل مسئلہ ہے۔ زوال کے بعد ایک نئی کہانی بننی کھڑی ہو جاتی ہے، اس میں وہ لوگ ہی حصہ لے سکتے ہیں جان کے اندر اس چیز کا احساس ہو کہ جو کچھ ہوا صحیح نہیں ہوا۔ جب ندامت ہو گی اور راستے بھی نکل آتے ہیں اور اگر ندامت کے بجائے انانیت کا ہی غلبہ رہا تو زوال کے آنے کے بعد اس سے بچنا محال اور ناممکن ہے۔
تو ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھیں کہ زوال کیا ہے؟ زوال کے کیا اسباب ہوتے ہیں؟ زوال کے بعد اس سے بچنے کا کیا علاج ہے؟ دوستو ! میرا موضوع بحث زوال نہیں ہے۔ زوال کے موضوع پر بحث کرنا، اور اس کے اسباب کی نشاندہی کرناعلماء کا کام ہے ، اور زوال کے آنے کے بعد اس کا علاج بھی بتانا انہی لوگوں کا کام ہے۔
میرا مقصود موضوع زوال کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اب یہ کام ہے ہمارے ان علماء کرام کا جن کے اوپر یہ ذمہ داری ہے، کہ وہ واضح کریں کہ زوال کب، کیوں اور کیسے آتا ہے؟ اور کیسے اس زوال سے بچا جاسکتا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ زوال کے مختلف وجوہات ہوتے ہیں ۔ مثلا: گھر کے مالک کی مالکیت ہی ختم کردی جائے، مالک کو مالک نہ مانا جائے، مالک کو مالک مانا جائے مگر ساتھ ساتھ اس کے ساتھ کسی غیر کوئی شریک کر دیا جائے۔ میری نظر میں یہ سب حرکتیں اس گھر کے افراد کے زوال کی نشانی ہے۔
آپ کیا کہتے ہیں؟ مالک نے کہا یہ کرو، میں نے کہا ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پر بھی ذرا نظر ڈالو۔ مالک نے کہا یہ ٹھیک نہیں، میں نے کہا کیوں ؟ ؟؟؟اس میں تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ مالک نے کہا ایسا کرنے سے ایسا ہوگا اور ایسانہ کرنے سے ایسا ایسا ہو گا، میں نے کہا کیا کہہ رہے ہو، وقت سے پہلے ہی ایسی ایسی باتیں کر رہے ہو، وقت کس نے دیکھا ہے؟؟؟؟ جو ہوگا دیکھا جائے گا، کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ کب کیا ہو گا، ہاں آج اگر یہ کر لیں تو ممکن ہے کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو۔ میں کہتا ہوں کہ کیا یہ زوال کے اسباب نہیں ؟؟؟؟ مالک نے کہا بیٹھ جاؤ، میں کھڑا ہوگیا۔ مالک نے کہا یہ کھالو، میں نے کھانے سے انکارکر دیا۔ مالک نے کہا میرے پیچھے چلو، (لا تقدمو بين يدي الله ) میں پھر بھی آگے آگے ہی چلتا رہا۔ مالک نے کہا فلاں کا کہا مانو اور فلاں کی بات نہ سنو، میں نے کہا بات کسی کی بھی ہو، کہنا کسی کا بھی ہو، میرا فائدہ ہونا چاہئے، پھر کہنے والا کوئی بھی ہو، کیا اسے زوال نہیں کہا جاسکتا؟؟؟؟
ذرا اپنا محاسبہ تو کرو کیا بات ہے ؟ ذرا سوچو تو صحیح کیا وجوہات ہیں؟؟؟؟ ذرا نظرتو دوڑاؤ کہ ہم سے کیا کیا حرکات سرزد ہو رہی ہیں؟؟؟؟؟ یہ سب کرنے کے بعد خود بخود معلوم ہوا جائے گا، کہ طوفان کن راستوں سے آتے ہیں اور کس طرح تھم جاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ تب ہی معلوم ہوتا ہے جب ہم گزری ہوئے قوموں کے ساتھ ساتھ اپنا آج بھی دیکھ لیں۔
اصل مسلہ تو آج زوال کا ہے، اس جانب توجہ سے ہی نہیں ، قلم کاروں کے لکھنے سے ہی نہیں، واعظین کا بیان کرنے سے ہی کام نہ بنے گا، بلکہ توجہ، لکھنے اور بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر ایک جگہ جمع ہو کر خالص خدا کے لیے فکر کرنے کی ضرورت ہے، فکر صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خصوصأ ملت اسلامیہ کے لیے۔ کیوں کے زوال کی واضح نشانیاں دیکھ کر ، زوال کے ماحول کو ہی غنیمت جان کر اپنی باقی بچی زندگی گزارنا اپنی آخرت پوری طرح برباد کرنے کے برابر ہے۔
اب اگر کوئی بربادی ہی چاہتا ہو تو چپ چاپ بیٹھ جائے اور اپنی باری کا انتظار کرے، اور اگر کوئی چاہتا ہے کہ زوال کے بعد اصلاح ہونی چاہئے تو اس کے لیے کھڑا ہونا ضروری ہے۔ فساد دیکھ کر اس کے تدارک کی کوشش نہ کرنا، فساد ہی شمار ہوتا ہے۔ جس ذات کو فساد دیکھ کر اسے ختم کر نے کی ہمت نہیں وہ سب کچھ تو ہوسکتا ہے لیکن مہذب نہیں کہلایا جاسکتا۔ کل کی تاریخ کا مطالعہ کیجے، آج کا حال دیکھیے اور معلوم کیجے کہ کل اور آج میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
کل بھی زوال آیا تھا اور آج بھی زوال کے آثار نمایاں ہیں۔ ان کا زوال کیسے آیا اور ہمارا زوال کیونکر آیا۔ پڑھ کر ہمارے دلوں میں حرکت ضرور آئے گی، اور حرکت ملی تو تبدیلی بھی ضرور آئے گی، تبدیلی آئی تو زوال کا موسم پھر عروج کے موسم میں تبدیل ہو جائے گا مگر ضرورت ہے کھڑاہونے کی۔
گھبرائے نہیں! میں آپ کے دل اور دماغ کو کسی نئی چیز کی طرف گمانا نہیں چاہتا ہوں بلکہ اشاروں میں باتیں کرنا بہترسمجھتا ہوں، میرا مقصد اشارہ کرنا ہے باقی کام توعقل مند خود ہی جانتے ہیں۔ میں نہ تو عالم ہوں، نہ ہی کوئی قلم کار، بس ذہن میں ایک خلش تھی، زبان پر چند الفاظ تھے، دل میں ایک تڑپ تھی سوآپ کے سامنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں رکھ دیا۔ ضروری نہیں لفظ صحیح ہوں، ہاں مگر یقین ہے کچھ نہ کچھ صحیح ہوگا، ورنہ دل سے یہ باتیں نہ نکلتیں۔ اللہ تعالی صحیح راه نصیب فرما کر اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔ آمین