یعقوب بن اسحق الکندی اسلامی دنیا کا پہلا دیو قامت فلاسفر اور عقلیت پسند مفکر تھا۔ ان کو اس طور سے بھی فضیلت حاصل ہے کہ انھوں نے اسلامی دنیا میں سائنسی علوم کے مطالعے کا آغاز کیا۔ ہم وطنوں میں یہ فیلسوف العرب کے لقب سے مشہور تھے۔
Yaqub bin Ishaq Al-Kandi |
الکندی عراق کے علامہ دہر تھے۔ کسی اور سائنس دان سے ان کی مماثلت مشکل ہے کیوں کہ ان کو بہ یک وقت فلاسفی ، علم جوتش، فلکیات ،علم کیمیا، منطق، ریاضی، موسیقی، طبیعات، بصریات، طب، نفسیات، علم الادویہ ، علم مناظرہ اور موسمیات پر ید طولا حاصل تھا۔ علمیت اور اسکالرشپ کے جو نقوش انھوں نے تاریخ پر ثبت کیے وہ ان کا نام ابد الآباد تک زنده رکھیں گے۔
کندی جلیل القدر ریاضی دان تھا جس نے ہندی نظام اعشاریہ اسلامی دنیا میں متعارف کیا تھا۔ کندی پہلے سائنس دان تھا جس نے قرآن پاک کی سائنسی و عقلی تفسیر کا آغاز کیا تھا۔ عالی نسب الکندی پہلا مشائی فلاسفر ( ارسطو کا مقلد ) جس نے یونانی فلسفے (ارسطو) کو اسلامی دنیا میں متعارف کیا تھا۔
کندی اسلامی دنیا کا پہلا میوزن تھیوری ٹیسن تھا۔ کر پٹا انا لے سز cryptanalysis بھی اس نے متعارف کیا تھا۔کندی نے کیمسٹری ، طب ، میوزک، طبیات، نفسیات میں ایک ایسی عجوبہ روزگار چیزیں دریافت کیں جو اس سے پہلے کسی سائنس دان نے نہ کی تھیں۔
وہ بیت الحکمه کے معتبر رکن تھے ۔ کئی ایک عباسی حکم راں نے ان کو یونانی تراجم کا نگران مقرر کیا، کیوں کہ وہ یونانی اور شامی زبانوں کا کامل دستگاه رکھتے تھے۔ عہد قدیم کے فلاسفروں کی کتابوں کے مطالعے نے ان کی دانش کو مہمیز دی اور انھوں نے خود اخلاقیات، مابعد الطبیعات، ریاضی اور فارما کالوجی میں فقید المثال کتنا ہیں زیب قرطاس کیں ۔ ریاضی میں ہندی اعداد کو اسلامی اور مغربی دنیا میں متعارف کیا۔
ان کو کر پٹالوجی، کر پٹا انالیست cryptology & cryptanalysis کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ریاضی کے فارمولوں کی مدد سے ڈاکٹروں کے لیے اسکیل بنائی تا کہ وہ دوائی کی طاقت جان سکیں۔ میوزک تھراپی میں بھی تجربات کیے۔ یہ پہلے مسلمان سائنس دان تھے جنھوں نے اسلامی عقائد اور فلسفہ و سائنسی علوم میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
ان کے سائنسی ، فلسفیانہ، اسلامی نظریات نے مشرق و مغرب کے جید عالموں ابومعشری، ابن الہیثم، ابن سینا، غزالی، ابن رشد، جیرارڈ آف کریمونا، ٹامس ایکوئے ناسThomas Acquainas اور اطالوی اسکالر کا رڈانوCardano کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔
ان کی پیدائش اور تعلیم
الکندی کی پیداش بین کے شاہی خان دان میں ہوئی جو کوفہ میں آباد تھا۔ یہیں تعلیم و تربیت پائی۔ ان کے آبا و اجداد ایک عرصے سے کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔ کندی اس سے مشہور ہوئے کیوں کہ ان کا تعلق عرب کے قبیلہ بنو کندہ سے تھا۔ آبا و اجداد میں اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے جو رسول کے صحابی تھے۔
والد کا نام اسحق بن مصباح تھا، جو محدثین میں شمار ہوتے تھے۔ والد گرامی عبای حکم راں مہدی (785-775) اور ہارون الرشید (811-797) کے دور خلافت میں کوفہ کے گورز تھے۔ اعلا تعلیم کے لیے جب بغداد منتقل ہوئے تو عباسی حکم راں مامون اور معتصم (842-833) نے ان کی سرپرستی کی۔ ان کے زمانے میں کوفہ سائنسی علوم کا مرکز بن چکا تھا۔
اوائل عمر میں فلسفے اور ریاضی کا مطالعہ کیا مگر بغداد نقل مکانی کے بعد ان کی کل توجہ علوم عقلیہ میں مرکوز ہوگئی۔ اس وقت یونانی سے عربي زبان میں کتابوں کے تراجم کا دور شروع ہو چکا تھا۔ چوں کہ انھوں نے فلسفیانہ کتب کے تراجم کیے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سریانی اور کسی حد تک لاطینی زبان پر عبور حاصل تھا۔
انھوں نے ارسطو کی مابعد الطبیعات اور دینیات کا ترجمہ کیا۔ کچھ عرصے تک خلیفہ مامون الرشید کے دربار میں اعلا مقام حاصل رہا۔ بغداد کے سائنسی انسٹی ٹیوٹ بیت الحکمت کے ڈائریکٹر رہے۔ مامون کے بعد خلیفم معتصم کے بھی
مقرب بارگاہ رہے، جس نے آپ کو اپنے بیٹے احمد کا اتالیق مقرر کیا تھا۔جملہ علوم میں مہارت کی وجہ سے کئی دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا جیسے ابو معشر بن محمد بلخی اور محمد بن موسی شاکر اور احمد بن موسی شاکر۔ بیرونی نے لکھا تھا کہ موی برادران کی کندی سے نفرت اور دشمنی کا یہ حال تھا کہ نوجوان کو بوڑھے میں تبدیل کر دے ۔
ان کی عادت تھی کہ جو لوگ علوم وفنون کے ماہر ہوتے ان کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیتے تھے۔ اس طرح انھوں نے ریاضی دان سند بن علی کو خلیفہ متوکل کے دربار سے سازش کر کے الگ کیا۔
انھوں نے محض حسد اور بغض کی بنا پر کندی کے خلاف بھی سازش کی۔ عباسی حکم ران متوکل نے کندی کو سزا دی، اس کی کتا بیں ضبط کر لی گئیں جو بغداد کے مشہور کتب خانہ کندہ کی زینت تھیں۔ جب موسی برادران نہر کی تعمیر کے اسکینڈل میں ملوث پائے گئے تو انھوں نے سند بن علی کی سفارش طلب کی۔ سند بن علی کے اصرار پر کندی کوعلمی سرمایہ واپس لوٹایا گیا۔ افسوس کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے اور اتنا عظیم انسان ہونے کے باوجود زندگی کے آخری ایام تنہائی، گم نامی اور کنج عزلت میں بسر کیے۔
ایک مال دار تا جر کندی کے پڑوس میں رہتا تھا جو ان کا پکا دشمن تھا۔ اتفاق سے اس تاجر کالڑکا سکتے کے مرض میں مبتلا ہو گیا ۔ اس نے بغداد کے تمام اطبا کو علاج کے لیے بلایا مگر کسی کے علاج سے شفایابی نہ ہوئی ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ تمھارے پڑوس میں فلسفی رہتا ہے وہ اس مرض کے علاج میں قدرت رکھتا ہے۔ اس نے لجا تے ہوئے کندی سے مشورہ طلب کیا۔ کندی نے کہا: علاج کے لیے موسیقی کے تلامزا میں جوعود بجانے کے ماہر ہیں ، ان کو بلایا جائے۔ چار ماہر ین حاضر ہوئے ۔
کندی نے حکم دیا کہ وہ مریض کے سرہانے برابر عود بجاتے رہیں، جب کہ اس دوران کندی کا ہاتھ مریض کی نبض پر تھا۔ عود سنتے سنتے اس کی نبض میں قوت آنی شروع ہوگئی، سانس آنے لگی، جسم میں حرکت پیدا ہوئی، پھر اٹھ بیٹھا اور گفتگو کرنے لگا۔ کندی نے مریض کے باپ سے کہا: جو باتیں اس سے کرنی ہے کرلو، باتوں کو لکھتے جاؤ۔
باپ سوال کرتا، لڑکا جواب دیا جاتا تھا۔ جب سوالات ختم ہو گئے تو عود بجانے والوں نے راگ بدل دیے اور پھر عود بجانا بھی چھوڑ دیا۔ لڑکا دوبارہ سکتے میں چلا گیا۔ باپ نے دوبارہ عود بجانے کا کہا مگر کندی نے کہا: اس کی زندگی میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔
الکندی کے اخلاق و عادات
کندی کا خاندان چوں کہ صاحب ثروت تھا اس لیے ان کے عالی شان مسکن میں دیدہ زیب گلستان تھا۔ انھوں نے گھر میں غیر ملکی جانوربھی پالے ہوئے تھے۔ یہ نرم مزاج اور بردبار شخصیت کے حامل تھے۔ وسیع القلب ، وسیع النظر تھے۔ دشمن آپ کے خلاف سازشیں کرتے مگر یہ ہمیشہ مروت کا اظہار کرتے تھے۔ اگر چہ معتزلہ عقائد کے پیرو کار تھے مگر راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔
ان کی خوب صورت سوچ
اوردل آویز شخصیت کے طلسم سے ہر کوئی متاثر ہوتا تھا۔ اعلا ادبی ذوق کے حامل تھے ۔تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ تنہائی پسند تھے ،انسانیت نواز ملن سار ہنس مکھ انسان تھے۔ طبیعت میں شگفتگی تھی، دل شکنی سے تعرض فرماتے تھے۔ لطیف حس مزاح بھی پائی تھی۔ ایسا ہونا ممکن ہے کیوں کہ مزاح انسان میں علم ، لوگوں کو ہنسانے کی اہلیت اور طنز سے پیدا ہوتا ہے اور بطور استاد و مصنف کے وہ ان باتوں میں فوقیت رکھتے تھے۔ ان کی گھریلو زندگی بہت کوش گوارتھی ۔ اخلاف میں ایک بیٹا چھوڑا تھا۔
ابن ندیم، صاحب كتاب الفهرست نے لکھا ہے کہ کندی بخیل تھا۔ عثمان جاحظ نے بھی کتاب البخلاء میں یہی بات لکھی تھی ۔ کندی نے اپنے بیٹے ابو العباس کو چند وصیتیں کی تھیں، جن میں سے بعض میں انھوں نے بخل وطمع کی ترغیب دی تھی۔
علامہ ابن ابی اصیبہ نے اس وصیت کونقل کیا تھا۔ قفطی نے اخبار الحكماء میں لکھا ہے کہ کندی کسی درد میں مبتلا رہتا تھا۔ پرانی شراب نوش کر کے صحت یاب ہو جاتا تھا لیکن جب شراب سے توبہ کر لی تو شہد کی شراب پینا شروع کر دی۔ اس قسم کی شراب کا اثر جسم کے اندرونی حصے تک نہیں پہنچتا تھا۔ درد نے شدت اختیار کر لی، اعصاب میں تشنج پیدا ہو گیا ، جس کا اثر دماغ پر ہوا۔ اسی حالت میں اس نے داغ مفارقت دیا۔
کندی کے دشمنوں میں سے بغداد کے موسی برادران تھے جن کے اکسانے پر عباسی حکم راں متوکل نے حکم دیا تھا کہ کندی کی اپنی تصنیف کردہ کتابیں اس کے سر پر اتنی بار ماری جائیں کہ یا تو سر پھٹ جائے یا پھر کتا ہیں۔
بادشاہ کے حکم پر انھوں نے کندی کی لائبریری کو ضبط کیا تھا اور جب ان کے دن پھر گئے اور شاہ متوکل ان سے بدظن ہو گیا تو انھوں نے سند بن علی سے سفارش کرنے کے لیے کہا جس نے مدد کا وعدہ اس شرط پر کیا کہ وہ کندی کی لائبریری بحال کر دیں ۔ محمد،احمد اور حسن بن موسی شاکر، اگر چہ کفیل تھے مگر علما و فضلا سے پیشہ ورانہ حسد بھی کرتے تھے۔