میری خواہشیں سبھی ختم ہیں میری آرزوئیں تمام ہیں
میرے دوش پر کئی بوجھ ہیں کئی تہمتیں میرے نام ہیں
نہ ادھر دکھے نہ ادھر ملے جو ملے وہ در سے تیرے ملے
تو کھلائے ہم کو پلائے تو، تیرے ہاتھ سارے ہی جام ہیں
جو کلام حق کو پڑھو گے تم تو یہ جان جاؤ گے بالیقین
سبھی گفتگوئیں ہیں بے ثمر، تو فضول سارے کلام ہیں
سبھی کج کلاہ، سبی بادشاہ تیرے در کے ہی تو ہیں سب گدا
کوئی مان لے، کہ نہ مان لے تیری ذات کے ہی غلام ہیں
جو چمن چمن کی بہار ہے، جو مہک ہے خوشبو ہے پیار ہے
جو خوشی میں غم میں قرار ہے وہ تو میرے خیر انام ہیں
جو فدائے حسن جہاں رہے ،وہ مرے تو مر کے فنا ہوئے
تیرے عشق میں جو مٹے مگر، اے خدا وہی تو دوام ہیں
بڑی پرفتن سی یہ رات ہے، بڑے دکھ کی مولیٰ یہ بات ہے
وہی انظر آج ہیں دربدر کہ جو اُمتوں کے امام ہیں