Ayurvedic and Unani Tibbia College, Delhi
حکیم محمد أجمل خان نے اپنے یورپ کے سفر کے دوران مغرب میں طبی تعلیم وتربیت کا جو معیار دیکھا تھا اس سے وہ بہت متاثر تھے۔ ان کو کو طب یونانی پر ذرا بھی شک نہیں تھا لیکن انکی دوراندیش نظر یہ دیکھ رہی تھی کہ اگر مستقبل میں طب یونانی کو ایلو پیتھک طریقہ علاج کے مساوی درجہ لینا ہے تو ضروری ہے کہ اس تعلیم وتربیت کو عصری تقاضوں کے مطابق انجام دیا جائے، جس کے لیے ضرورت تھی جد ید ترین طبی سہولیات کے حامل ایک معیاری طبیہ کالج کی، چنانچہ آپ نے اپنے بھائی حکیم عبدالمجید خان کے ذریعہ ۱۸۸۳ میں قائم کئے گئے مدرسہ طبیہ کوتجد ید سے آراستہ کر نے کا قصد کرلیا۔
آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج ، دہلی
مدرسہ طبیہ انجمن طبیہ کے تحت چلتا تھا۔ آپ نے انجمن کے جملہ اراکین کوا پنے مقصد سے باخبر کیا ۔ مدرسہ طبیہ کی تجد یداور تشکیل نو سے سب متنفق تھے لیکن منصو بہ کوانجام دینے کے لئے جہاں مدرسہ قائم تھاوہ جگہ کم تھی، لہذا اس کے لئے دہلی کے قرول باغ علاقہ میں ایک زمین پسند کی گئی ۔
زمین کی قیمت زیادہ تھی اور اس کی خریداری حکیم أجمل خاں کے دست امکان میں نہ تھی اس وقت حکیم صاحب کے تعلقات ہندوستان کے دائسراۓلارڈہارڈ نگ سے اچھے تھے ۔اتفاق سے ایک گارڈن پارٹی میں لارڈ ہارڈ نگ نے آپ سے اچانک در یافت کرلیا کہ طبیہ کالج کے لئے زمین کا معاملہ طے ہوا کہ نہیں حکیم صاحب نے جواب دیا کہ زمین کی مطلو بہ قیمت ہم ادا نہیں کر سکتے ۔
زمین مفت یا برائے نام قیمت پر فراہم کی جاۓ ۔ لارڈ ہارڈنگ حکیم أجمل خاں کی شخصیت اور ان کے فن سے اتنے مرعوب تھے کہ وہ آپ کی تجویز مستر نہیں کر سکے ۔ چنانچہ اسی وقت چیف کمشنرکوحکم دیا کہ آراضی کا تصفیہ حکیم صاحب کی ایما کے مطابق کر دیا جاۓ۔اس کے بعد جورقم طلب کی گئی وہ اتنی کم تھی کہ حکیم صاحب اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔
29 مارچ 1916 کو وائسرائے ہند لارڈ بارڈنگ نے ہی قرول باغ میں فراہم کی گئی آراضی پر اپنے ہاتھوں سے آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کا سنگ بنیاد رکھا ۔ ہندوستان کی سرزمین پر یہ پہلا ادارہ تھا جہاں آیرویدک اور طیب یونانی دونوں ہندوستانی طریقہ علاج کی معیاری تعلیم وتربیت کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔
کالج کے نظام میں باقاعدگی کی غرض سے حکیم أجمل خان نے 1918 میں بورڈ آف ٹرسٹیز قایم کیا اس بورڈ میں ہر مذہب وملت کو اچھی نمائندگی دی گئی ۔
کالج تعمیر ہو رہا تھا ادھر گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کی تحریک بھی پروان چڑھ رہی تھی۔ حکیم أجمل خان کے تمام تر مقاصد، ان کے خوابوں کی تعبیر طبیہ کالج کے تمام تر مفادات حکومت برطانیہ سے وابستہ تھے، مگر آپ نے اپنی ذات، اپنے فن، اپنی قوم کے مفاد پر ملک کے مفادات کو ترجیح دی اور گاندھی جی سے ہاتھ ملا کر کانگریس میں شامل ہو گئے۔
یہی وجہ تھی کہ وائسرائے نے قرول باغ میں 48 ایکڑ زمین دے کر جس کالج کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھوں سےرکھا تھا اسی کالج کا افتتاح 1921 میں برطانوی سامراج کے سب سے بڑے مدمقابل گاندھی جی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
یہ کالج اپنی مختلف عمارتوں، لیکچر ہال، اسپتال، ہاسٹل، دفتر اور سٹاف کوارٹرز کی تعمیر کو تین سال کی مدت میں تیار کیا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق اس کی تعمیر میں تقریبا سات لاکھ روپے صرف ہوئے۔حکیم صاحب نے انیس سو تین میں اپنی ذاتی عمارت میں یونانی اینڈ آئرویدک میڈیسن لمیٹڈ کمپنی کے نام سے ایک دواساز کمپنی قائم کی تھی جو آگے چل کر ہندوستانی دوا کھانا میں تبدیل ہوگئی۔اس دواخانہ کی آمدنی سے کالج کے تمام خرچ اٹھائے جاتے تھے۔
اس کالج کی ترقی اور فروغ کے لیے حکیم صاحب نے انتہائی لگن اور محنت سے کام کیا۔ اس میں تعلیم وتربیت کے لیے قدیم وجدید مضامین پر مشتمل نصاب تعلیم تیار کروایا گیا۔اس کے لئے آپ نے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا اور کالج کو جدید ترین طبی آلات سے آراستہ کیا۔
آپ طب یونانی کو جدید میڈیکل سائنس سے ہم آہنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔
آپ نے کچھ مضامین جیسے تشریح البدن، منافع الاعضاء، فارماکالوجی، امراض نسواں واطفال، امراض چشم، امراض جلد، اور سرجری کو جدید سائنس کی روشنی میں پڑھانے کی ترغیب دی۔
آج بھی یہ کالج ج اپنے نے بانی کی شاندار یادگار کے طور پر قائم ہے۔ ہے ہے مرحوم کی تمناؤں کے مطابق ق اءیرویز اور طب یونانی کی بقا کا اور فروغ کا باعث بن رہا ہے ہے۔
امید ہے کہ آپ کو یہ پیشکش پسند آئی ہوگی۔