Islamophobia |
A negative view of Islamophobia
اسلاموفوبیا کا ایک منفی نظریہ
اسلاموفوبیا دو چیزوں سے مرکب ہے۔ اسلام اور فوبیا۔
امریکہ میں ایک تنظیم کنسل آف امریکن پبلکشن (CIAR) جو اسلاموفوبیا کے خلاف لڑ رہے ہیں اوریہ کونسل 1994ء میں قائم ہوئی۔ صحیح اسلام کو سمجھنا اور امریکی مسلمانوں کے حقوق کیلئےلڑ نا اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہے۔ اسلاموفوبیا اب بڑے پنانے پر دنیا کے کونے کونے تک پھیل رہا ہے۔ اس بحث وتمحیص سے قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف نفرت حسد، بغض، عداوت جیسے گھناونے چیزوں کا مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
یورپ اور مغرب اسلام اور اسکے پیرو کاروں کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ ان کو اپنے مدمقابل سمجھنا، اپنے آپ کو اعلی اور دوسروں کو بدتر اور کم تر سمجھنا اسلاموفوبیا کا اہم حصہ ہے۔اسلاموفوبیا ہی کے نتیجے میں تحقیر آمیز خاکے اورفلمیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف بے بنیادالزامات لگا کر اسلام کی شبیہ کو مسلسل اور منصوبہ بند پلان کے تحت بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلاموفوبیا ہی کے نتیجے میں ایک عیسائی اسلاموفو بک کا شکار انڈریو برملیک Andrew Barmalik نے اوسلو میں 90 نہتے مسلمانوں کوقتل کیا ۔
2012 ء میں تحقیر آمیز فلم Innocenceof Muslims کو بنانا اور پھر براڈ کاسٹ کرانا اسلاموفوبیا ہی کی ایک شکل ہے ایک یہودی درسگاہ سے وابسطہ مذہبی پیشوا عربی یسرائیل Arabi Yesraiel نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران کہا کہ عالم عرب میں آنے والے انقلاب عیسائی اور یہودی دنیا بلکہ عامی براداری کیلئے خطرہ ہے ان انقلابات کے نتیجے میں عرب دنیا میں زمام حکومت اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں آئے گی جس کے بعدایک نئی جنگ شروع ہوجائے گی اسکا مزید کہنا ہیے کہ سب عیسائی دنیا سے اسلام بنیاد پرستی پرمبنی عظمت اسلام کے خلاف یہودیوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے اور یہودیوں اور عیسائیت کو خطرات سے بچانے کیلئے آگے آنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسلاموفوبیا اب نسلی برتری اور تفاخر کی نئی شکل ہے جبکہ کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ اسلاموفوبیا دنیا میں ایک منفی نظریہ کے طور پر ابھررہا ہے۔اسلاموفوبیا کا نظریہ حضورصلی الله علیہ وسلم کے دور میں شروع ہوا تھا۔ جب ابوذر غفاری مکہ میں تلاش حق کی غرض سے آئے تھے تو انکے سامنے اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا اور نا معقول باتیں کے گئیں۔ اموی دور میں ( جان آف دمشق) جو کہ ایک عیسائی عالم تھا، نے اسلام کو ایک گمراہ کن فرقہ قرار دیا تھا اور اسلام کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے ۔
اٹلی کے ڈیٹ الگاری نے اپنی شاعری اسلام کے خلاف بھر پور استعال کی۔پندرھویں صدی میں متنازعہ پینٹنگ “آخری فیصلہ” کو گوئٹے نے اٹلی میں نمودار کی۔ اس پینٹنگ میں اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو بھر پور بگاڑنے کی کوشش کی ۔ بیسوی صدی میں جے آلسی نے اسلام اور قرآن کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے ۔ امریکہ میں رابرٹ پنسر(Robert Sponsor) کی کتابیں بڑے پنانے پر پڑھی جارہی ہیں ،کیونکہ اسکی کتابوں میں اسلام، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو انتہائی ہتک آمیز اور بد اخلاقی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رابرٹ سپنسر کے علاوہ سر مانٹگمری اور ٹائن بی نے بھی اسی طرح کام کیا۔ ٹائن بی نے تو یہاں تک کہہ دیا :”Muhammad (Peace be upon him) failed as a prophet but succeeded as statesman
عیسائی اور یہودی دنیا اسلام کو ایک خوف زدہ اور نا قابل قبول مذہب تصور کرتے ہیں ان کا تصور یہ ہے
- اسلام دوسرے مذہبوں اور تہذ یبول کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
- اسلام مغربي اور یورپی طرز زندگی کیلئے دشمن اور ناموافق ہے۔
- اسلام غیر جمہوریت پسند مذہب ہے۔
- اسلام عورتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔
- اسلام امن وامان کیلئے خطرے کی علامت ہے۔
- اسلام تشدد کو فروغ دیتا ہے۔
9/11 کے بعد مغرب نے اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف اپنی نفرت اوردشمنی کابھر پور اظہار کیا۔ وہ اسلام کو ہر محاذ پر شکست دینے کے درپے ہیں۔مغرب نے عالم اسلام کے خلاف کھلے عام جنگ برپا کی اور یہ جنگ فکری، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر بے تحاشہ ظلم ڈھایا جارہا ہے۔
9/11 کے بعد جارج بش نے مسلم ممالک کے خلاف کھلے عام جنگ چھیڑ دی جس کو وہ Crusade یعنی مذہبی جنگ کا نام دیتا تھا۔ اس Crusade کو اس نے اپنی تقریروں میں تین بار دہرایا۔