اعتکاف کے معنی کیا ہیں

اعتکاف کے متعلق مکمل جانکاری حاصل کریں

اعتکاف کے متعلق مکمل جانکاری حاصل کریں


اعتکاف کے معنی کیا ہیں

لغت میں کسی جگہ میں بند ہو جانے یا کسی مقام پر ٹھہر نے کواعتکاف کہتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیوی تعلقات ومصروفیات اور بیوی بچوں سےالگ ہوکر مسجد میں قیام کرے۔

اعتکاف کی حکمت کیا ہے

اعتکاف ہی تو ہے کہ آدمی دنیوی کا روباراور تعلقات سے کٹ کر ،اور گھریلو مصروفیات اور نفسانی خواہشات سے بے تعلق ہو کر فکر وعمل کی ساری قوتوں کو خدا کی یاد، اور عبادت میں لگادے،اور سب سے الگ تھلگ ہو کر خدا کے پڑوس میں جا بسے ، اس عمل سے ایک طرف تو آ دمی ہر طرح کی لغو باتوں اور برائیوں سے محفوظ رہے گا ، دوسری طرف خدا سے اس کا تعلق مضبوط ہوگا۔

 

اس کا  قرب حاصل ہوگا اور اس کی یاداورعبادت سے قلب ور وح کوسکون اور سرورمحسوس ہو گا اور چند دن کی تربیت کا  یہ عمل اس کے دل پر یہ گہرا اثر چھوڑے گا کہ ڈنیا میں اپنے چاروں طرف ہرطرح کی رنگینیاں اور دل کشیاں دیکھنے کے باوجودخدا سے تعلق مضبوط رکھے،خدا کی نافرمانی سے بچے اور اس کی اطاعت میں قلب وروح کا سکون و سرور تلاش کرے۔ اور پوری زندگی خدا کی بندگی میں گزارے۔

اعتکاف کی قسمیں کتنی ہیں

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں

( ۱ ) واجب

 ( ۲ ) مستحب

( ۳ ) سنت مؤکده

اعتکاف واجب کیا ہوتا ہے

نذر کا اعتکاف واجب ہے کسی نے یونہی اعتکاف کی نذر مانی یاکسی شرط کے ساتھ مانی مثلا یہ کہا کہ اگر میں امتحان میں کامیاب ہو گیا یا میرا فلاں کام پورا ہوا تو میں اعتکاف کروں گا تو یہ اعتکاف واجب ہے اور اس کا پورا کر نا ضروری ہے۔

اعتکاف مستحب کیا ہوتا ہے

رمضان المبارک کے اخیر عشرے کے علاوہ جو بھی اعتکاف کیا جا تا ہے وہ مستحب ہے، چا ہے رمضان کے پہلے اور دوسرے عشرے میں کیا جاۓ یا کسی اور مہینے میں ۔

اعتکاف سنت مؤکده کیا ہوتا ہے

رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ کفایہ ہے ،یعنی مسلمانوں کو بحیثیت اجتماعی اس سنت کا اہتمام کر نا چاہئے کیونکہ احادیث میں اس کی انتہائی تا کید کی گئی ہے ،خودقر آن میں بھی اس کا ذکر ہے۔

اوراپنی عورتوں سے نہ ملو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پابندی کے ساتھ ہر سال اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ کا یہی معمول رہا اور ایک سال کسی وجہ سے آپ اعتکاف نہ کر سکے تھے تو دوسرے سال آپ نے بیس دن تک اعتکاف فرمایا ۔ اس لئے اگر مسلمان اس سنت کواجتماعی طور پر چھوڑ دیں گے تو سب ہی گنہگار ہوں گے اور اگر بستی کے کچھ افراد بھی اس سنت کا اہتمام کر لیں تو چونکہ سنت کفایہ ہے اس لئے چند افراد کا اعتکاف سب کی طرف سے کافی ہو جاۓگالیکن یہ بات اتنہائی تشویش کی ہوگی کہ پورا مسلمان معاشرہ اس سے بے پروائی بر تے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب سنت بالکل ہی مٹ جاۓ۔

 

حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، وفات تک آپ کا یہی معمول رہا، اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کا اہتمام کرتی رہیں ۔‘‘  ( بخاری ،مسلم)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ،ایک سال آپ اعتکاف نہ فرماسکے،تو اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔‘‘ ( جامع ترمذی)

افضل ترین اعتکاف کون سا ہوتا ہے

سب سے افضل اعتکاف وہ ہے جو خانہ کعبہ یعنی مسجد الحرام میں کیا جاۓاس کے بعد وہ اعتکاف ہے جو مسجد نبوی میں کیا جاۓ۔اور اس کے بعد اس اعتکاف کا درجہ ہے جو بیت المقدس میں کیا جاۓ،اس کے بعد وہ اعتکاف افضل ہے جوکسی جامع مسجد میں کیا جاۓجہاں با قاعدہ جماعت سے نماز ہوتی ہو، اور اگر جامع مسجد میں نماز با جماعت کانظم نہ ہوتو محلہ کی مسجد میں جہاں نماز با جماعت کا اہتمام ہو،او راس کے بعد ہر اس مسجد میں اعتکاف افضل ہے جہاں نماز با جماعت میں ز یا د ولوگ شریک ہوتے ہوں ۔

اعتکاف کی شرطیں کون کون سی ہوتی ہین

اعتکاف کی چارشرطیں ہیں جن کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہوتا ہے ۔

(۱) مسجد میں قیام

مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کر یں۔ چا ہے اس مسجد میں پنج وقتہ نماز با جماعت کا اہتمام ہو یا نہ ہو مسجد میں قیام کے بغیر مردوں کا اعتکاف صحیح نہیں  ہے ۔

( ۲ ) نیت

نیت جس طرح دوسری عبادات کے لئے شرط ہے اسی طرح اعتکاف کے لئے بھی شرط ہے،نیت کے بغیر اعتکاف نہ ہوگا۔اگر کوئی شخص یونہی نیت کئے بغیر مسجد میں ٹھرار ہا،تو یہ ٹھر نا اعتکاف نہ ہوگا۔ پھر یہ ظاہر ہی ہے کہ عبادت کی نیت اس وقت صحیح ہے جب نیت کر نے والا مسلمان ہواور ہوشمند بھی ہو ، دیوانے اور مجنون کی نیت کا کوئیاعتبار نہیں۔

( ۳ ) حدث اکبر سے پاک ہونا

یعنی مر داور خواتین حالت جنابت سے پاک ہوں اور خواتین حیض و نفاس سے پاک ہوں۔

( ۴ ) روزه

اعتکاف میں روزے سے رہنا بھی شرط ہے ،البتہ یہ صرف اعتکاف واجب کے لئے شرط ہے،اعتکاف مستحب میں روز ہ شرط نہیں اوراعتکاف مسنون میں روزہ اس لئے شرط نہیں ہے کہ وہ تو رمضان میں ہوتا ہی ہے۔

اعتکاف کے احکام بتایں

 

(۱ ) اعتکاف واجب کم سے کم ایک دن بھر کا ہوسکتا ہے اس سے کم کانہیں ہوسکتا اس لئے کہ اعتکاف واجب میں روزے سے رہنا ضروری ہے۔

( ۲ ) اعتکاف واجب میں روزے سے ہونا ضروری تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ روز ہ خاص اعتکاف کی غرض سے ہی رکھا گیا ہو،مثلا کوئی شخص رمضان میں اعتکاف کی نذر مانے تو یہ عتکاف صیح ہوگا اور رمضان کا روز ہ اعتکاف کے لئے کافی ہوگا۔ البتہ یہ  ضروری ہے کہ اعتکاف میں جو روزہ رکھا ہے واجب ہو ،نفلی روز ہ نہ ہو۔

( ۳ ) اعتکاف واجب میں کم سے کم مدت ایک دن ہے اور زیادہ کی کوئی قیدنہیں جتنے دن کی چا ہے نیت کر لے۔

( ۴ ) اعتکاف مستحب کے لئے کوئی مدت مقر نہیں ، چندمنٹ کا اعتکاف بھی صحیح ہے۔

( ۵ ) اعتکاف واجب کے لئے چونکہ روز ہ شرط ہے اس لئے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھنے کی نیت کر لے جب بھی اس کے لئے روز و رکھنا لازم ہے، اور اسی لئے اگر کوئی شخص صرف شب کے اعتکاف کی نیت کرے گا تو وہ لغو سمجھی جاۓگی ۔

( ۲ ) اگر کوئی شخص شب وروز کے اعتکاف کی نیت کرے یا کئی دن کے اعتکاف کی نیت کرے تو اس میں شب داخل سمجھی جاۓگی اور شب میں بھی اعتکاف کر ناضروری ہوگا ۔ ہاں اگرایک ہی دن کے اعتکاف کی نذر ہوتو پھر صرف دن بھر کا اعتکاف ہی واجب ہوگا۔شب کا اعتکاف واجب نہ ہوگا۔

( ۷ ) خواتین کو اپنے گھر ہی میں اعتکاف کرنا چاہئے ،خوانین کے لئے کسی مسجد میں اعتکاف کرنا مکردہ تنز یہی ہے ،خواتین گھر میں عام طور پر جس جگہ نماز پڑھتی ہوں اسی مقام پر پردہ وغیرہ ڈال کر اعتکاف کے لئے مخصوص کر لینا چا ہئے ۔

( ۸ ) رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف چونکہ سنت مؤ کدہ کفایہ ہے، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ بستی میں کچھ لوگ ضرور اس کا اہتمام کر یں اگر اس سنت کے اہتمام سے ایسی غفلت برتی گئی کہ بستی میں کسی نے بھی اعتکاف نہ کیا تو بستی کے سارے ہی لوگ گنہگار ہوں گے۔

( ۹ ) اگر اعتکاف واجب کسی وجہ سے فاسد ہو جائے تو اس کی قضا واجب ہے، البتہ اعتکاف مسنون اوراعتکاف مستحب کی قضا واجب نہیں۔

اعتکاف مسنون کا وقت کیا ہوتا ہے

اعتکاف مسنون کا وقت رمضان کی بیس تاریخ کوغروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اورعید کا چاند نظر آ تے ہی ختم ہو جا تا ہے، چا ہے چاند ۲۹رمضان کونظر آۓ یا ۳۰ رمضان کو ہر حال میں اعتکاف مسنون پورا ہو جاۓگا۔

اعتکاف کرنے والا ۲۰ رمضان کو غروب آفتاب سے ذرا پہلے مسجد میں پہنچ جاۓاور اگر کوئی خاتون ہوتو اسی وقت گھر میں ،اس خاص جگہ پر پہنچ جاۓجواس نے گھر میں نماز پڑھنے کے لئے بنارکھی ہو اور عید کا چاند نظر آنے تک اپنے معتکف ( جاۓ اعتکاف) سے باہر نہ نکلے،البتہ کسی طبعی ضرورت مثلا پیشاب پاخانے غسل جنابت وغیره یاشرعی ضرورت مثلا نماز جمعہ وغیره کے لئے معتکف سے باہر جانا جائز ہے، لیکن ضرورت پوری ہونے کے بعد فورا واپس اپنےمعتکف میں پہنچ جانا ضروری ہے۔

اعتکاف واجب کا وقت کیا ہوتا ہے

اعتکاف واجب کے لئے چونکہ روز و شرط ہے اس لئے اس کا کم سے کم وقت ایک دن ہے، ایک دن سے کم چند گھنٹے کے لئے اعتکاف کی نذر ماننا بے معنی ہے ،اس لئے کہ روزے کا وقت طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے۔

اعتکاف مستحب کا وقت کیا ہوتا ہے

نفلی اعتکاف کسی بھی وقت ہوسکتا ہے، نہ اس کے لئے روز و شرط ہے ، اور نہ کوئی خاص مہینہ اور وقت، جب بھی آدمی مسجد میں ہو، اعتکاف مستحب کی نیت کرسکتا ہے اور مسجد میں چا ہے چند لمحے ہی قیام رہے اس کواعتکاف کا اجر وثواب ملے گا۔

حالت اعتکاف میں مستحب امور

( ۱ ) ذکروفکر کرنا، دینی مسائل اور معلومات پرغور کر نا اورتہلیل میں مشغول رہنا۔

( ۲ ) قرآن پاک کی تلاوت کرنا ،قرآن میں تدبر کرنا۔

( ۳ ) درود شریف یا دوسرے اذکار کا اہتمام کرنا۔

( ۴ ) دینی علوم پڑھناپڑھانا۔

( ۵ ) وعظ و تبلیغ اور نصیحت تلقین میں مصروف ہونا ۔

( ۲ ) دینی تصنیف و تالیف کے کام میں مصروف ہونا۔

وہ امور جو اعتکاف میں جائز ہیں

( ۱ ) پیشاب اور قضاۓحاجت کے لئے اپنے معتکف سے باہر جانا جائز ہے ،مگر یہ لحاظرہے کہ یہ ضرورتیں اس جگہ پوری کی جائیں جومعتکف سے قریب ہو، اگر مسجد سے قریب کوئی جگہ نہ ہو یا جگہ تو ہولیکن بے پردگی یا گندگی کی وجہ سے ضرورت رفع نہ ہوتو پھراپنے گھر رفع حاجت کے لئے جانے کی اجازت ہے۔

( ۲ ) غسل جنابت کے لئے بھی معتکف سے باہر جانے کی اجازت ہے۔ ہاں اگر مسجد میں غسل کا انتظام ہوتو پھر مسجد ہی میں غسل کر نا چا ہئے ۔

( ۳ ) کھانے کے لئے بھی مسجد سے باہر جانا جائز ہے اگر کوئی کھانالا نے والا نہ ہو۔ اور اگر کھانالانے والا ہوتو پھر مسجد ہی میں کھانا ضروری ہے ۔

( ۴ ) جمعہ کی نماز کے لئے بھی معتکف سے باہر جانا جائز ہے اور اگر کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا ہو جہاں جماعت نہ ہوتی ہوتو پنج وقتہ نماز کے لئے جانا بھی جائز ہے۔

( ۵ ) کہیں آگ لگ جائے یا کوئی شخص کنوئیں میں ڈوب رہا ہو یا کوئی کسی کوقتل کر رہا ہو یا مسجد گر جانے کا خوف ہو تو ان صورتوں میں معتکف سے باہر آنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے، لیکن اعتکاف بہر حال ٹوٹ جاۓگا۔

( ۲ ) اگر کوئی شخص کسی طبعی ضرورت مثلا قضائے حاجت کے لئے معتکف سے نکلایا شرعی ضرورت مثلا نماز جمعہ کے لئے نکلا اور اس دوران اس نے کسی مریض کی عیادت کی یانماز جنازہ میں شریک ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ۔

( ۷ ) کسی بھی شرعی یا طبعی ضرورت کے لئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے لیکن ضرورت پوری کر لینے کے بعد فورا معتکف میں واپس آ جاۓ۔

( ۸ ) جمعہ کی نماز کے لئے اتنی دیر پہلے جانا کہ اطمینان سے تحیتہ المسجد اور جمعہ کی سنتیں پڑھ لی جائیں اور جمعہ کی نماز کے بعداتنی دیرٹھر نا کہ اطمینان سے بعد کی سنتیں ادا کر لی جائیں جائز ہے اور اس وقت کا انداز معتکف کی راۓپر ہے۔

 ( ۹ ) اگر کوئی شخص زبر دستی معتکف سے با ہر نکال دیا جاۓیا کوئی زبردستی معتکف سے باہر روک لیا جاۓتب بھی اعتکاف ختم ہو جاۓگا۔

( ۱۰ ) اگر کسی کو کوئی قرض خواہ باہر روک دے یاوہ شخص خود بیمار ہو جاۓاور معتکف تک پہنچنے میں تاخیر ہو جاۓتب بھی اعتکاف فاسد ہو جاۓگا۔

( ۱۱ ) اگر کوئی خرید وفروخت کرنے والا نہ ہواور گھر میں کھانے کو نہ ہوتو یہ جائز ہے کہ معتکف بقذ رضر ورت خرید وفروخت کر لے۔

( ۱۲ ) اذان دینے کے لئے مسجد سے باہر نکلنا بھی جائز ہے۔

( ۱۳ ) اگر کسی معتکف نے اعتکاف کی نیت کر تے وقت یہ نیت کر لی تھی کہ نماز جنازہ کے لئے جاؤں گا تو نماز جنازو کے لئے نکلنا جائز ہے اور نیت نہیں کی تھی تو جائز نہیں۔

( ۱۴ ) حالت اعتکاف میں کسی کو کوئی دینی یاطبی مشورہ دینا ، نکاح کرنا ،سونا اور آرام کرنا جائز ہے۔

وہ امور جو اعتکاف میں نا جائز ہیں

( ۱ ) حالت اعتکاف میں جنسی لذت حاصل کر نا ، یاعورت سے بوس و کنار کر نا نا جائز ہے، البتہ بوس و کنار وغیرہ سے اگر انزال نہ ہوتو اعتکاف فاسد نہ ہوگا۔

( ۲ ) حالت اعتکاف میں کسی دنیوی کام میں مشغول ہونا مکر و تحریمی ہے ۔ البتہ مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔

( ۳ ) حالت اعتکاف میں بالکل خاموش بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے ذکر وفکر یا تلاوت یاد ینی کتب کے مطالعے وغیرہ میں مشغول رہنا چاہئے ۔

( ۴ ) مسجد میں خرید وفروخت کرنا، یالڑ نا جھگڑنا ،غیبت کرنا یا اور کسی طرح کی بے ہودہ باتوں میں مصروف ہو ناسب مکروہ اور نا جائز ہے ۔

( ۵ ) کسی طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیرمسجد سے باہر جانا یا طبعی اور شرعی ضرورت سے باہرنکلنا اور پھر باہر ہی ٹھر جانا جائز نہیں ہے اوراس سے اعتکاف فاسد ہو جا تا ہے۔

 

WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں