طالبان افغانستان کی سب سے مقبول اور اثر دار سیاسی قوت بن چکی ہے اگر نسلی اعتبار سے دیکھیں تو طالبان کے اکثر لوگ پشتون ہیں ۔طالبان نے افغان روس جنگ کےدوران افغان جہاد میں مجاہدین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر جہاد کیا ،حالانکہ کہ اس وقت طالبان وجود میں نہیں آئی تھی۔
روس کو شکست دینے کے بعد جہاں مجاہد ین اقتدار کے لیے آپس میں لڑ پڑے تو آپس کی لڑائی میں لاکھوں افغانی اپنی اپنی جانوں سے گئے۔ آج بھی اس دور کو ایک سیاہ دور کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس اقتدار کی جنگ میں جب سب مجاہدین آپس میں لڑ رہے تھے تو ان میں سے ایک مجاہد کے دماغ میں اللہ تعالی نے اس جنگ کو ختم کر نے کا خیال ڈالا۔ اس طرح سے 1994 میں ایک تحریک وجود میں آئی جس کا نام تحریک اسلامی طالبان رکھا گیا اور وہ آدمی جس نے یہ تحریک شروع کی اس کا نام ملا محمد عمر تھا۔
یہ صرف چند طلباء کا ایک گروہ تھا جس کا امیر ملا محمد عمر تھا ان کی سربراہی میں افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا یا جس کووہ اسلامی خلافتکا نام دیتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ گیارہ سال کی خطرناک جنگ کے بعد افغان طالبان نے 6 سال کے مختصر عرصے میں افغانستان کو ایک امن کا گہوارا بنا دیا۔ یہ بات مغرب کو ہضم نہیں ہوئی اور اور مغرب میں طالبان کے خلاف سازشوں کا جال بننا شروع ہوا ۔
دوستوں انہوں نے عقل مندی کے ساتھ ملک کی سبھی شاہراہوں کو محفوظ بنا کر اور اضافی ٹیکس کو ختم کر کے افغانستان کی آمدورفت کو محفوظ بنا دیا۔ یہی وہ بات تھی جو مغرب کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے تھے۔
ان کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ اتنا غریب اور مفلس ملک بغیر انجینئرز، بغیر یونیورسٹیز اور بغیر کسی پالیسی کے اتنے کم وقت میں اتنی بڑی کامیابی کیسے حاصل کر سکتا ہے، یہ بات ایک معجزے سے کم نہیں ہے تھی۔
افغان طالبا ن نے افغانستان کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنا سکھایا ورنہ اب تک وہ صرف اور صرف بندوق کی زبان سمجھتے تھے۔انہوں نے عورت کو وہ مقام دیا کہ جب بھی وہ کہیں سے گزرتی تو مرد اپنی نگا ہیں نیچی کر لیتے، یہ وہ بات تھی جو مغرب ستا رہی تھی۔
افغان طالبا ن دھیرے دھیرے دنیا کے سامنے اسلام کا معاشرتی اور اقتصادی نظام لانے لگے ۔ یہ سب دیکھ کر مغرب کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ نظام مغرب اور یورپ کے سودی نظام پر ایک گہری چوٹ کے مترادف تھا۔
اب بھی جاری ھے ۔۔۔۔۔