hakeem ajmal khan

مسیح الملک حکیم اجمل خاں ایک عظیم انسانHakeem Ajmal Khan

 طب یونانی  Hakeem Ajmal Khanپر اگر چہ بوعلی سینا اور امام رازی نے بے پناہ احسانات کیے ہیں ۔ اور اپنے خون جگر سے اس کھیت کو سینچا ہے، جس کی فصل آج یورپ بڑی مستعدی سے فروخت کررہا ہے۔ بھلے ہی اس نے اس کو نئے زاویے اور نئے رنگ سے ہم آہنگ کر دیا ہو۔


ہندوستان کی سرزمین پر بھی ایسے باہنر اور با کمال لوگ پیدا ہوئے، جن سے عالم انسانیت نے فائدہ اٹھایااور مسلسل مستفید ہورہی ہے، خواہ وہ علم و ادب کا میدان ہو یا طب صحت کا۔ بعض لوگ تو جامع الصفات ہوتے ہیں، وہ بہ یک وقت سبھی محاذوں پر کام کرتے ہیں اور بڑی مہارت سے کرتے ہیں۔ ایسی ھی شخصیت تھی ہندوستان کے نامور ادیب، شاعر، مجلد آزادی، مفکر ، طبیب اعظم، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کیا۔

 حکیم اجمل خاں 11فروری1865ءکو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمود خاں تھا، جو اپنے وقت کے طبیب اعظم تھے۔ حکیم اجمل خاں اپنے گھر میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کا گھرانہ دینی و علمی تھا۔ سب سے پہلے اپنے سینے میں قرآن محفوظ کیا۔ پھر اردو، فارسی، عربی، فلسفه ،منطق، طبیعات، حدیث وتفسیر پڑھی۔ انگریزی بھی پڑھی اور سب سے آخر میں مستند اساتذہ سےبھی تعلیم حاصل کی۔

 طب میں تاریخ ان کا جانشین پیدا کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے طب کو نئے زمانے، نئے رواج اور نئے حالات کے مطابق سنوارا۔ فرنگیت کے اس ماحول میں جب کہ طب یونانی کو حقارت کی نظرسے دیکھا جارہا تھا۔ انھوں نے اپنی صلاحیت سے اس کی عزت بچائی اور فرنگیوں سے ”حاذق الملک‘‘ کا خطاب پایا۔

 حکیم اجمل خاں صرف نسبی حکیم نہ تھے، بلکہ وسیع النظر اور وسیع القلب علم تھے۔ انھوں نے پہلےعرب اور مشرقی ممالک کا دورہ کیا۔ وہ جہاں گئے وہاں انھوں نے خصوصی طور پر اسپتالوں کا معائنہ کیا۔ صرف اس نقطہ نظر سے کہ ایسی کیا چیزیں ہیں، جو طب یونانی کے لیے صحت بخش اور سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔

 ان کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے طب یونانی کو یورپین ممالک میں روشناس کرایا اور ان لوگوں سے تعریفی کلمات کہلوائے، جواس طب کوذلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک مرتبہ لندن کے دورے پر وہاں کے مشہور اسپتال چیرنگ‘‘ کا معائنہ کرنے گئے۔ وہاں ہر شعبے کی تحقیقات کیں۔ہر بنیادی اور فروی چیز کا بغور مطالعہ کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسفلے بانڈ اسپتال کے مشہور اور سینئر سرجن تھے اور بلاشبہ لندن کے بہت بڑے ڈاکٹر تھے۔ ان کی ملاقات حکیم صاحب سے ہوئی۔

طب یونانی پر گفتگو ہوئی ۔ ڈاکٹر بانڈطب یونانی کو وزن نہ دیتے تھے۔ آخر انھوں نےحکیم صاحب سے ایک مریض کو رکھ کر مرض کی تشخیص کرنے کو کہا۔ حکیم صاحب نے اس کوبغور دیکھا اور کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصے میں کہنہ زخم ہے، جس کے باعث درد کی تکلیف ہے۔ یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بانڈ نے اپنے تمام آلات ومشینوں کے ذریعے مرض کی تشخیص کی تھی۔

 جب کہ حکیم صاحب نے صرف نبض پر ہاتھ رکھا تھا۔ ڈاکٹر بانڈ کو اپنی تشخیص مکمل عتماد تھا۔ اس اعتماد کے نشے میں انھوں نے حکیم صاحب سے اگلے دن اس مریض کے آپریشن کے وقت آنے کی درخواست کی اور یہ بھی اعلان کردیا کہ یہطب یونانی اور انگریزی طب کا امتحان ہے ۔

 حکیم صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرلیا۔ اگلے دن مریض کا آپریشن کیا گیا۔ ڈاکٹر بانڈدیکھ کر دنگ رہ گئے کہ حکیم صاحب کی تشخیص درست ہے۔ اس نے کھلے دل سے اعتراف کرلیا اورطب یونانی کی تعریف کی ۔ حکیم صاحب کے اعزاز میں ڈنر دیا، جس میں لندن کے مشہورڈاکٹر اور معززین مدعو تھے۔

  ایک واقعہ کیا بلکہ بے شمار واقعات حکیم صاحب کی زندگی میں اس طرح کے پیش آئے، جب انھوں نے انگریزی طب کو مات دی اور ایسے مریضوں کا کامیاب علاج کیا، جن کو انگریزی ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی ، علامہ اقبال، لالہ لاجپت رائے جیسے عظیم لوگ ان کا قصیدہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔

 حکیم اجمل خاں اپنے آپ میں ایک جماعت تھے، ایک تحریک تھے۔ اس ایک فرد واحد نے اتنا کام کیا جتنا ایک جماعت بھی مشکل سے کرتی ہے۔ انھوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے خان دانی مطب پر خدمت خلق کا کام انجام دیا۔ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کے پیش نظر حکومت نے ان کو ریاست رام پور میں محکمہ طب کا افسر اعلامقررکردیا۔ انھوں نے اپنی محنت شاقہ ،خلوص ولگن سے اس خدمت کو انجام دیا۔ یہاں رہ کر ان کو تجربات کرنے اور مطالعہ کرنے کا خوب موقع ملا اور اس طرح ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہوگیا۔

 حکیم اجمل خاں کے سینے میں ایک دردمند دل تھا۔ اس لیے انھوں نے چتلی قبر میں ایک یتیم خانہ قائم کیا، جس کا نام معهد الاسلام رکھا، جس میں یتیم بچوں کی مکمل کفالت اور تعلیم وتربیت کی جاتی تھی۔ ۱۹۰۸ء میں ایک زنانہ کالج قائم کیا، جو کالج کے ساتھ اسپتال بھی تھا۔ اس کا نام علم المقابلہ رکھا۔

 ۱۹۱۰ء میں جب حکومت نے میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ کے ذریعے یونانی اور آیورویک کوختم کرنے کی سازش کی، تو انھوں نے بروقت آیورویدک و یونانی طبی کانفرنس منعقد کی، جس کے ذریعے حکومت کے اس اقدام کاسختی سے نوٹس لیا۔ ان کی بروقت کوششوں سے طب یونانی زندہ رہی۔ آپ نے 1912۶ء میں مدرسہ کو ترقی دے کر آیورویدک و یونانی طبیہ کالج کی شکل دی۔

اس کے علاوہ بیواؤں اور ناداروں کو وظائف دیے۔ اسلای اداروں، ندوه، دارالمصنفین، دائرة المعارف و غیره و معقول اعانتیں عطا کیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہر طرح سرپرستی کی۔ بہت دنوں تک اپنی جیب خاص سے اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اس راہ میں اپنی ہیرے کی انگوٹھی فروخت کر ڈالی۔ 

حکیم اجمل خان نے مسندطبابت پر بیٹھ کر حیرت انگیز علاج کے۔ کوئی بھی مریض ان کے مطب سے بہ غیر شفا کے واپس نہ ہوا۔ ایک غریب لکڑہارے سے لے کر نوابوں، انگریز افسروں، مجاہدین آزادی اور کشمیر کی مہارانی تک کا علاج آپ نے کیا اور اللہ کے فضل سے فوز وفلاح حاصل کی۔

 آپ کے علاج کی ایک خوبی ہی تھی کہ آپ مریض کی حیثیت سے نسخہ لکھتے تھے۔ غربا کے لیے آپ بہت معمولی قیمت کے نسخہ لکھا کرتے ،مگر وہ بھی کارگر ہوتے۔ آپ کے علاج کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ آپ دوا کے بجائے حسن تدبیر سے علاج کرتے۔ ان کے نادر تجربات اور بیش بہا نسخوں سے پوری دنیاآج بھی مستفید ہورہی ہے۔  

طبی اور سماجی خدمات کے علاوہ آپ نے سیاسی میدان میں بھی ملک و قوم کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں چلنے والی تحریک آزادی کا آپ نے بھر پور تعاون کیا۔ انگریزوں سے عدم تعاون کی تحریک کے جواب میں آپ نے برٹش گورنمنٹ کے دیے ہوئے خطابات کو واپس کردیا۔ قوم نے آپ کے اس ایثار کودیکھتے ہوئے آپ کومسیح الملک ‘‘ کا خطاب عطا کیا، جو آپ کے نام کا جز بن گیا۔

 انگریز حکومت کو آپ نے ہر میدان میں دندان شکن جواب دیا۔ آپ نے کانگریں کی مبر شپ سے لے کر صدارت تک خدمات انجام دیں۔ آپ نے ۱۹۲۱ء میں کانگرس صدر کی حیثیت سے قوی رہبری کا فریضہ  ادا کیا۔ 

ملک وقوم کا یہ درخشندہ ستاره29 دسمبر 1927ء کو رام پور میں غروب ہوگیا اور پوری قوم تیم ہوکر رہ گئی ۔ آپ کی وفات پر مہاتما گاندھی نے اس طرح خراج عقیدت پیش کیا:

حکیم اجمل خاں کی موت نے مجھ سے صرف ایک دانشور اور ثابت قدم شریک کار کو نہیں چھین لیا، بلکہ میں نے ایک ایسا دوست بھی کھو دیا جس پر میں ضرورت کے وقت بھر پور اعتماد کر سکتا تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کے معاملے میں وہ میرے مشیر اور رہنما تھے۔ وہ انسانی فطرت کو خوب پہچانتے تھے اور اس صلاحیت نےانھیں صحیح قوت فیصلہ عطا کی تھی۔ وہ ایک خیالی قسم کے انسان نہ تھے، بلکہ وہ اپنےخوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی پوری قوت رکھتے تھے۔

 

ان کی موت پر پوری قوم سوگواری تھی ۔ شاید ہی کوئی آنکھ ہو جونم نہ ہوئی ہو، کوئی دل ہو، جس نے دردکی آہ نہ بھری ہو۔ خراج عقیدت اور تعزیت کے لیے رہبران قوم کے پاس الفاظ نہ تھے۔وہ ہندومسلم دونوں کے دل میں رہتے تھے۔

سابق صدر جمہوریہ ہند ،ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مرحوم ان کو ان الفاظ میں خران عقیدت پیش کرتے ہیں:

جولوگ حکیم اجمل خاںسے اپنے مرض کا نسخہ لینا چاہتے ہیں، جو اپنی ملازمت کی سفارش کے خواہاں ہیں جنھیں اپنے عزیز کی شادی کے لیے روپیے درکار ہے، جن بیواؤں کی روٹی ان کی توجہ سے چلتی تھی، جن یتیموں اورناداروں کی تعلیم کے لیے ان کے خزانے سے رقم ملتی تھی، ان کی تعداد سیکڑوں، ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں تک بھی ہے، ان کا اجمل خاں رخصت ہو گیا مگر طب قدیم کا خانه مجررطبی تعلیم کا رہنما آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا ۔

 

 

WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں