انسانی دل ایک کشمکش کا میدان ہے۔ کبھی یہاں پاکیزہ خیالات جنم لیتے ہیں تو کبھی ناپسندیدہ اور برے وسوسے بھی سر اٹھاتے ہیں۔ یہ وسوسے (Waswasa) اکثر مومن کے دل میں اضطراب اور پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ کیا محض دل میں ایسے خیالات کا آنا گناہ ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے ان خیالات پر بازپرس فرمائیں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پاکیزہ حدیث اس سوال کا واضح، رحمت سے بھرپور اور تسلی بخش جواب دیتی ہے۔
اگر اس حدیث پاک کو مکمل طور پرسمجھنا چاہتے ہیں تو اس آڈیو کو ضرور سنائیں
حدیثِ مبارکہ اور اس کا مفہوم:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرمایا ہے جب تک وہ ان کے مطابق عمل نہ کر لیں یا بات نہ کر لیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے، یعنی اسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے اپنی صحیح کتابوں (صحیح بخاری: ۲۵۲۸، صحیح مسلم) میں بیان کیا ہے، جو اس کی بلند ترین درجے کی صحت اور مستند ہونے کی واضح دلیل ہے۔
حدیث کی تشریح اور اہم نکات
اس مختصر مگر گہرے معنی رکھنے والی حدیث سے درج ذیل اہم باتیں واضح ہوتی ہیں:
وسوسوں سے درگزر (Darguzar) اللہ کی عظیم رحمت: حدیث کا مرکزی اور سب سے خوش کن پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلمپر خصوصی رحمت فرمائی ہے۔ وہ ان کے دلوں میں اٹھنے والے وسوسوں (Waswasa) پر، خواہ وہ شیطانی ہوں یا نفسانی، اس وقت تک مؤاخذہ نہیں فرماتے جب تک وہ صرف خیال کی حد تک رہیں۔ یہ اسلام میں رحمت اور آسانی کے اصول کی بہترین عکاسی ہے۔
مؤاخذہ کی بنیادی شرط: عمل یا کلام: حدیث میں اللہ کی معافی اور درگزر کی واضح شرط بیان کی گئی ہے: مَا لم تعْمل بِهِ أَو تَتَكَلَّم (جب تک ان کے مطابق عمل نہ کر لیں یا بات نہ کر لیں)۔
عمل (Amal): کسی برے وسوسے کے مطابق کوئی عملی قدم اٹھانا۔ مثلاً: چوری کا وسوسہ دل میں آئے اور چوری کر لے۔
تکلم (Takallum): کسی برے وسوسے کو زبان سے ادا کرنا یا اس کے بارے میں بات چیت کرنا۔ مثلاً: کفر کا خیال دل میں آئے اور اسے زبان سے کہہ دے، یا کسی کی برائی کا وسوسہ آئے اور اسے افشاں کر دے۔
نتیجہ: محض دل میں وسوسہ آنا بذاتِ خود کوئی گناہ یا قابلِ مؤاخذہ جرم نہیں ہے۔ گناہ کا تعلق اس وسوسے کو عملی جامہ پہنانے یا زبان سے ظاہر کرنے سے ہے۔
نیت اور عمل کا امتیاز: یہ حدیث اسلام میں نیت اور عمل کے درمیان واضح فرق کو نمایاں کرتی ہے۔ ایمان کا تعلق دل کے یقین اور نیت سے ہے۔ برے خیالات اگرچہ ناپسندیدہ ہیں، لیکن جب تک وہ دل کی حد سے نہ نکلیں اور نیت یا عمل پر اثرانداز نہ ہوں، وہ ایمان کو نقصان نہیں پہنچاتے، اور نہ ہی ان پر اللہ کی پکڑ ہوتی ہے۔
حدیث کی اہمیت، پیغام اور عملی رہنمائی
بشارت و تسکین: یہ حدیث ہر اس مومن کے لیے بے پناہ تسلی اور بشارت کا پیغام ہے جو اپنے دل میں اٹھنے والے ناپسندیدہ خیالات سے پریشان رہتا ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوریوں سے واقف ہیں اور ان پر بے پناہ مہربان ہیں۔
نفسیاتی سہارا: وسواس (OCD) یا دیگر نفسیاتی مسائل میں مبتلا افراد کے لیے یہ حدیث ایک مضبوط نفسیاتی سہارا ہے۔ یہ انہیں یقین دلاتی ہے کہ محض خیالات پر ان کا مکمل اختیار نہ ہونے کی صورت میں اللہ انہیں معاف فرما دیں گے، بشرطیکہ وہ ان خیالات پر عمل نہ کریں یا انہیں بیان نہ کریں۔ یہ احساسِ جرم اور بے جا خوف کو کم کرنے میں مددگار ہے۔
عملی رہنمائی
وسوسوں سے بچاؤ کی کوشش: دل میں آنے والے برے خیالات کو جگہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اللہ کی پناہ مانگنا (`اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم`)، ذکر و اذکار (`لا حول ولا قوۃ الا باللہ`)، قرآن پاک کی تلاوت اور نیک کاموں میں مشغولیت وسوسوں سے بچنے کے مؤثر ذرائع ہیں۔
عمل و گفتار پر کنٹرول: سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی برے وسوسے پر عمل نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے بارے میں بات کی جائے۔ یہی وہ حد ہے جس کے پار جانے پر وسوسہ گناہ بن جاتا ہے۔
نیک نیتی برقرار رکھنا: دل کی نیت کو صاف رکھنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ برے خیالات کو رد کرتے رہنا اور نیکی کی طرف رجوع کرتے رہنا ایمان کی علامت ہے۔
خلاصہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظیم حدیث وسوسوں کا درگزر اللہ تعالیٰ کی اپنی امت پر خصوصی رحمت اور شفقت کا مظہر ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ دل میں آنے والے محض خیالات، چاہے وہ کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں، جب تک وہ عمل یا گفتار کا روپ نہ اختیار کریں، اللہ کے ہاں قابلِ مؤاخذہ نہیں ہیں۔ یہ پیغام ہمیں بے جا پریشانی اور احساسِ جرم سے نجات دلاتا ہے، جبکہ ساتھ ہی ہمیں اپنے اعمال اور گفتار پر خصوصی توجہ دینے اور انہیں نیکی کی راہ پر ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ اسلام کے متوازن، رحمدل اور عملی تعلیمات کا شاندار نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھے، اپنی رحمت سے ہمارے دلوں کے خیالات کو معاف فرمائے، اور ہمیں اپنے عمل اور کلام کو صرف اپنی رضا کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔