اعتکاف کے معنی کیا ہیں

جدید نظریات اور مسلم نو جوان | Modern ideas and Muslim youth

 

Modern ideas and Muslim youth
Modern ideas and Muslim youth

یاسر نبی شہیدی

Modern ideas and Muslim youth


اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نے جب پورے انسانی معاشرے کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی بیخ کنی کی تو ایک ایسا نورانی معاشرہ وجود میں آیا جس کا طرہ امتیاز اللہ کی غلامی اور رسول کی اطاعت تھی جس کے بے شمار مثالیں قرن اول کی تاریخ میں موجود ہیں۔

 

یاسر نبی شہیدی
یاسر نبی شہیدی

 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں میں ابوطلحا، ابوعبیدہ بن جراح، ابودجانہ، معاذ بن جبل، اور سہیل بن بیضاء رضوان اللیہم اجمعین کی ساقی گری کررہاتھا اور شراب کے اثر سے ان حضرات کے سر ڈھلک چکے تھے کہ اچانک ایک اعلان سنائی دیا کہ شراب حرام کر دی گئی “انس فرماتے ہیں، اس سے پہلے کہ کوئی ہمارے پاس آتا، ہم میں سے کوئی باہر جاتا، پہلا کام یہ کیا گیا کی شراب بہا دی گئی اور مٹکے توڑ ڈالے گئے، پھر ہم میں سے کچھ نے وضو کیا کچھ نے غسل کیا اور ام سلیم کی خوشبو لگا کر مسجد نبوی کی طرف روانہ ہو گئے۔ (تفسیر ابن کثیر)

 

 قابل غور بات یہ ہے کہ لوگوں کو ڈرانے کے لئے نہ تنظیمیں قائم کرنی پڑیں اور نہ حکومت کو قید، سزائے موت یا املاک ضبط کرنے کا حکم صادر کرنا پڑا۔ بلکہ متبعین نے قرآن کا فیصلہ سناتو رضا کارانہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس علم کو بڑی خوشی اور فرما برداری سے خود پر نافذ کر ليا۔ معاشرے کی اس نوعیت کی اطاعت اور فرمانبرداری اور روشن خیالی سے شیطان کونسل انسانی پر اپنی گرفت ڈھیلی دکھائی دی تو اس نے بنی آدم کو گمراہی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اپنے عمل کا میدان گرم کیا ۔ اور اس سر چشمہ ہدایت سے بعید لوگوں کو بذریعہ وسواس اس بات پر ابھارا کہ وہ انسانیت کیلئے بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ نئے افکار و خیالات پیش کریں تا کہ انسانیت آسانی سے نور الہی سے دور ہوتی رہے۔

 

اس سلسلہ میں کامیاب ترین کارنامے ڈار ون کا نظریہ ارتقاء، مارکس کا نظریہ معاش اور فرائیڈ کا نظریہ شہوانیت مشہور زمانہ ہوئیے ۔ جوں جوں یہ نظریات عام ہوتے گئے ان کی اشاعت کی گئی تو سادہ لوح انسان اپنی کم علمی کے باعث ان نظریات کے سنہرے جال میں پھنس گئے ۔ حتی کہ انہیں اپنے وجود پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے اور یہیں سے علم و تحقیق کا مادہ کمزور ہو گیا اور اندھی تقلید کا دروازہ کھل گیا ، جس نے معاشرے کے اندر مختلف النوع خرافات اور طرح طرح کے غیر فطری افکار و خیالات کو جنم دیا۔ حتی کہ ہدایت یافتہ انسانیت ضلالت و گمراہی کی دہلیز تک پہنچ گئی۔ انسانیت کو گمراہی کی اس دہلیز تک پہنچانے میں ان تین قسم کے نظریات نے اہم رول ادا کیا۔

 

 ڈار ون کا نظریہ ارتقاء اور اس کے مفاسد

 

 ڈار ون نے انسانیت کا وجود اصلی مٹانے کیلئے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان حقیقت میں بندر کی شکل میں تھا جو اپنی عقلی صلاحیت اور فکری و عملی ترقی کی وجہ سے اس حیوان بے شعور سے انسان کامل بن گیا۔ اگر کوئی انسان اس نظریے پرتفکرانہ وتدبرانہ انداز اختیار کرتے ہوئیے غور کرے گا تو وہ اس کے مفاسد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

 

اس نظریہ کے اہم مفاسد میں سے ہے کہ انسان اپنے اصلی وجود سے نا آشنا ہوتا ہے پھر جب وجود اور حقیقت سے دور ہوجائے گا تو اس کے اندر غرور، تکبر، بد اخلاقی ، بے راہ روی، حقوق کی پامالی ظلم و بربریت جیسے مہلک امراض پیدا ہوں گے۔اسے نہ اپنی پہچان رہے گی نہ اپنے رب کی۔ بلکہ وہ اس احساس برتری اور خوش فہمی میں مبتلا رہے گا کہ اس نے کمال اپنے بل پر حاصل کیا۔اس پرنہ کوئی حاکم ہے نہ کوئی اس کا حساب لینے والا ، جس کا خوف اس کے دل میں بسار ہے۔

 

 اسی حقیقت کو اللہ تعالی نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے

 و من الناس من يعجبك قوله في الحياة الدنيا ويشهد الله على ما في قلبه وهو ألد الخصام (204)

 وإذا تولى سعى في الأرض ليفسد فيها و یهلک الحرث و النسل والله لا يحب الفساد (205)

 واذا قيل اله اتق الله أخذته العزة بالاثم فحسبه جهنم وبئس المهاد(206)

 

 اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے ما في الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ تخت جھگڑ الو ہے۔ اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین پر پھرتا ہے تا کہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو برباد اور (انسانی و حیوانی) نسل کو نابود کر دے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا ۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف کرتو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو جہنم کی سزاوار ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ (البقرۃ:204-206) 

 

 کارل مارکس کا نظریہ معاش اور اس کے مفاسد

 

دوسرا ملعون کارل مارکس جس نے ایسا نظریہ پیش کیا کہ زندگی کسب معاش کا نام ہے۔ اس نظریے کی اشاعت سے لوگوں کے اندر دنیا کمانے کا حرس اور مال کی محبت اس طرح رچ بس گئی کہ کسب معاش کو انسان نے اپنا مقصد وجود اور غایت تخلیق سمجھ لیا ۔ کارل مارکس کے اس نظریہ معاش نے لوگوں کو اپنے خالق سے دور کردیا ، دین کی محبت اور حب آخرت کے شیدائیوں کو دنیا کا بندہ اور مال کا غلام بنا دیا۔ انسانیت کی عظمت اور الفت و صداقت کو دلوں سے نکال پھینکا ۔ حسد، بغض، کینہ پروری جیسی بیاریوں کو معاشرے میں جنم دیا۔

 

 جس سے معاشرے کے اندر ایک ایسا انتشار برپاہوگیا کہ اصلاح معاشرہ کیلئے تنظیمیں قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی مگر یہ ایسازہر تھا جو معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے۔ اس زہر کے اثر کو ختم کرنے اور انسانیت کو گمراہی سے بچانے کا اگر کوئی نسخہ کارگر ہے تو وہ تعلیمات نبوی میں موجود ہے۔

 ملاحظہ ہو یہ انمول نسخہ

 

نبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا

 كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر السبيل (دنیا میں ایک اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح زندگی بسر کرو) 

 

 اسکی وجہ قرآن پاک میں الله تعالی نے یہ بیان کی کہ

 كل من عليها فان و يبقى وجه ربک ذوالجلال و الاكرام” (دنیا کی ہر چیز پر اللہ نے فنا کو لازم قرار دیا ہے سوائے تیرے رب ذوالجلال والاکرام کے) 

 

دوسری جگہ یہ ارشاد فرمایا کہ :

 

مجھے اپنی امت پر فقر و فاقہ کا خوف نہیں ہے بلکہ یہ خدشہ ہے کہیں دنیا کے سامنے پھیلا نہ دی جائے اور وہ اس میں فاقہ مست ہو کر مشغول ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجہ میں وہ اپنے دین کو بھول جائیں گے۔

 

 ایک حدیث میں اس کا ایک اور علاج بیان کیا گیا۔ چنانچہ نبی آخر الزماں صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:

 

لو أنكم تتوكلون على الله ليطعمكم كما يطعمكم الطير تغدوا خماشا و تروح بطانا

 

 اگر تم اللہ پر بھروسہ اور اعتماد کرو گے تو وہ تمہیں اسی طرح کھلائے گا جیسے پرندوں کو کھلاتا ہے جو صبح کو اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔

 

 سیگمنڈ فرائیڈ کا نظریہ شہوانیت اور اس کے مفاسد

 

 سیگمنڈ فرائیڈے صرف شہوت رانی کا نظریہ ہی نہیں بلکہ نو جوان نسل کی ہلاکت و بربادی کا سب سے خطرناک نسخحہ ان کے سامنے پیش کیا۔ یہ نظریہ اتنا عام ہو گیا کہ لطف و سکون کا واحد مرکز عورت کو پیش کیا ۔ اس کے بعد عورت نوجوان نسل کے دل و دماغ، افکار و خیالات اور اعصاب و جوارح پر اس طرح حاوی ہو گئی کہ ایک نوجوان جب دن بھر کے کام کاج یا معاشی مشغولیات سے فارغ ہو کر شام کے وقت گھر واپس لوٹتا ہے تو اسے یہ لمحات فرصت ( Leisure time) گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ۔

 

 چونکہ شہوانی جذبات کی حکمرانی اس پر اپنا پورا تسلط جما لیتی ہے، اس لئے وہ با دیدہ گریاں و دل بریاں کسی نہ کسی کی تلاش و تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا ہے، پھر اس راہ میں جو اس کا انجام ہوتا ہے اور اس تگ و دو میں جس قدر ذہنی، روحانی اور جسمانی چوٹیں وہ کھاتا ہے اس کی کسک اور چبھن ساری عمر محسوس کرتا ہے۔ اس کی شام اگر ہجر پر منتج ہوتی ہے تو اداسی کے مہیب پہاڑ اسے کچلنے لگتے ہیں اور اگر وصال تک نوبت پہونچی ہے تو وہ گھڑیاں جلد ختم ہو جانے کی وجہ سے حسرت کا شکار ہو جاتی ہے۔ پھر رات کو نا کام خواہشات کے مختلف روپ دیکھتا ہے اور یوں اسے اپنی صبح بے کیف محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ ورد کرتا ہے کہ

 

 سو بار تیرا دامن ہاتھوں میں میرے آیا 

 جب آنکھ ملی تو دیکھا اپناہی گریباں تھا

 

بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ دن بھر خیالی پلاؤ پکانے میں گزارتا ہے۔ جب شام آتی ہے تو اداسی و نامرادی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اور یہ حالت محسوس کرتا ہے کہ

 

 شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے 

 دل ہے گویا چراغ مفلس کا

 

 نوجوان نسل کو اس طرح خواہشات نفس کے سنہری جال میں پھانس کر اپنے دین سے دور کر دیا گیا۔ جبکہ شریعت اسلامیہ اس بے راه روی اور خواہشات نفس کی اتباع کرنے سے دور رکھنے کے لئے ملت اسلامیہ کے افراد کو واضح اور روشن تعلیمات سے روشناس کراتی ہے۔ اس مفسدہ سے پاک رکھنے کیلئے آپ ﷺ نے شادی کرنے کا حکم دیا تھا اور ساتھی یہ  بھی ارشاد فرمایا تھا کہ جو اس پر استطاعت نہیں رکھ سکتا ہے اسے روزہ رکھنا چاہئے اس لئے کہ وہ اس مفسدے سے پاک رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔

 

 مگر آج ہم اپنے معاشرے میں نوجوان نسل پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اکثر نوجوان اس دلدل میں پھنسے ہوئیے ہیں ۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں تو نوجوان اس دلدل میں قدم رکھنے میں مسابقت کرتے ہیں۔ ایسا لگتا کہ یہ بیماری ساری رسومات ( social custom) کا ایک جزو لا ینفک بن گیا ہے۔ یادرکھئے کہ نوجوانوں کو اس دلدل سے نکالنے اور بے راہ روی سے بچانے کا واحد حل اتباع سنت ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

 

 اے نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی عمر کو پہنچ جائے اسے شادی کر لینی چاہے

 

 مگر ہمارے نوجوانوں اور ہمارے معاشرے کویہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ پہلے مال کما لیا جائے پھر شادی کر لی جائے گی۔ گو کہ بات وہیں پر آجاتی ہے کہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے سے زیادہ انسان کو اپنے کمال اور اپنی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں کبھی انسان کو حرام موت (خود کشی) کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔

 

معاشرے میں پھیلی ایک بڑی غلط فہمی جس کا ازالہ بہت ضروری ہے

 

 ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف دنیا کمانے کی لالچ پائی جاتی ہے وہیں دوسری طرف جذبہ شہوانیت کا غلبہ بھی اپنے کمال عروج پر ہے۔ شہوانی خواہشات پر قابو پانے کیلئے آپ ﷺ نے شادی کا حکم دیا تھا مگر موجودہ معاشرے میں مال کی محبت اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک نوجوان کی شادی طے ہوتی ہے تو اس وقت عام طور پر اسکی جوانی کا اکثر حصہ گزر چکا ہوتا ہے اور جوانی کا یہ جذباتی حصہ یا تو بد اخلاقی اور ناجائز تعلقات میں گزرتا ہے یا پھر حسرت ونا امیدی کے عالم میں گزرتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کے یہ ایام اللہ کی غلامی اور رسول ﷺ کی اطاعت میں بسر کئے گئے ہوں ۔ 

 

مزید ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ جب جنس مخالف ( لڑکی کے ساتھ اس نوجوان کی شادی ہوتی ہے تو اس وقت وہ بالکل یا تو لڑکپن کے ایام میں ہوتی ہے یا ابھرتی جوانی کے ایام میں ۔ صورت حال یہاں تک پہونچتی ہے کہ ایک بیوی عین جوانی کے ایام میں اپنے شوہر سے، جو بڑھاپے کے ایام میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے، لطف اندوز نہیں ہو پاتی ہے ۔ ایسی صورت حال میں وہ اپنے شہوانی جذبات کو مٹانے کے لئے غیروں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے کی مرتکب ہو جاتی ہے۔اس طرح معاشرے کی یہ بیماری اس نسخے سے دور نہیں ہو پاتی ہے بلکہ اس کی نوعیت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے۔

 

 ایک لمحہ فکریہ

 

 غور کرنے کا مقام ہے کہ معاشرے کو بگاڑنے کا اہم عنصر خود ہمارے خیالات ہیں، جنہیں ہم معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں تمام والدین کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو شادی کے وقت دونوں فریق کی عمروں کے تناسب (Ratio) کی رعایت کریں ،اس کا لحاظ رکھیں ورنہ اس جرم عظیم کے ارتکاب میں جہاں مرتکبین کی گرفت ہوگی وہیں والدین کو بھی اللہ کے ہاں حساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

 نوجوان قوم کی، ترقی کا سب سے عظیم عنصر

 

یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کا مستقبل اس کے جواں نسل افراد سے وابستہ ہوتا ہے۔ جس قوم کو اپنا مستقبل روشن اور تابناک بنانا ہو گا اسے نوجوانوں کی ضمیروں کو بیدار کرنا ہو گا۔ کیونکہ جب ان کی روح اور ضمیر بیدار ہو جاتی ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگتی ہے۔

 بقول علامہ اقبال

 عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

 نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

 

WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں