wuzu ka bayan

یورپ اور اسلام | یورپ میں تیسرے اسلامی ملک کا وجود | Islam in Europe

اردو پونٹ کے معزز دوستوں آپ تمام پڑھنے والوں کو السلام علیکم ۔ ایک عمومی خیال کے مطابق یورپ کے علاقے میں بسنے والے تمام ممالک غیر مسلم ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ یورپ میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس پھیلاؤ کو روکنے کی مذموم کوششیں کر رہی ہیں، جبکہ ایک حیران کن امر یہ ہے کہ یورپ میں تین اسلامی ممالک بھی پائے جاتے ہیں ان کی اکثریت آبادی مسلم ہے ۔
Islam in Europe
Islam in Europe
عالمی نقشے  میں تیسرا اسلامی ملک منظر عام پر آیا جس کے بعد امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ بھارت نامی شرپسند ریاست نے بھی اس ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  یورپ کے وسط میں پایا جانے والا یہ ملک اسلامی ملک کیسے بن گیا اس کی کوئی تاریخ موجود ہے ؟اور موجودہ دنوں میں اس ملک کے حوالے سے کون سی اہم خبریں نکل کر سامنے آ رہی ہیں ۔
اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی میں ہونے والی چند اہم ڈیولپمنٹ پر غور کرنا ہوگا ۔آپ  تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں تو یہ بات آپ کے علم میں ہو گی کہ ماضی میں یورپ پر سلطنت عثمانیہ حکو مت کیا کرتی تھی۔اس قوم کے بہادر سپوتوں نے یورپ کے کئی علاقوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کو یورپ میں اسلامی تہذیب کےکافی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 
 ترکوں کے آباؤ اجداد کی بڑی تعداد یورپی ممالک میں بسی رہی اور اب بھی ترک باشندے بڑی تعداد میں یورپ کے ممالک کا حصہ ہیں۔ اس بات سے بیشتر افراد نا واقف ہوں گے کہ یورپ میں بوسنیا اور البانیا دو اسلامی ممالک پائے جاتے تھے، جبکہ ان میں اب تیسرا ملک کوسوو کے نام سے پیدا  ہوا ہے ،جس کے بعد عالمی سطح پر ایک ہلچل دیکھی جارہی ہے۔ یعنی  اس اسلامی ملک کے بارے میں اگر بات کی جائے تو اس کی جغرافیائی حیثیت کافی عام ہے کیونکہ یہ یورپ کے وسط میں پایا جاتا ہے۔ جبکہ اس کا ہمسایہ ملک البانیہ بھی ایک اسلامی ملک کی ہے۔
سربیا کے ساتھ کوسوو کی کشید بھی ایک عرصے سے چلی آرہی ہیں ان  دونوں ممالک کے درمیان کی جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں۔ سربیہ کوسوو کو اپنے ملک کا صوبہ تصور کرتا ہے ،اسکا اپنا پولیس کا نظام ہے اور وہ اپنی خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنے کی جنگ لڑ رہا ہے گزشتہ سال اس حوالے سے بڑی اہم خبر نکل کر سامنے آئی تھی ، 4 ستمبر 2020 کو دونوں ملکوں نے امریکہ کی مدد سے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں وسیع تر اقتصادی معاملات میں تعاون کے وعدوں کو آخری شکل دی گئی  تھی۔
انیس سو نوے کے عشرے کے شروع میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹ جانے اور پھر جنگ بلقان کے بعد دونوں ملکوں  نےعلیحدگی اختیار کر لی تھی اور 2008 میں اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا اس صورتحال کو سربیا نے تسلیم نہیں کیا ۔بیس سال سے زیادہ عرصے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک جامعہ سیاسی سمجھوتہ کرنے کی خاطر مغربی ملکوں کی کوشش بار آور نہیں ہو سکی تاہم گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں دونوں ممالک ایک ٹیبل پر بیٹھے ہوئے اور  اس تاریخی معاہدے سے سرحدوں کے آر پار  ایک دوسرے کے  لائسنس کو تسلیم کریں گے۔
 اس کے علاوہ صرف یہمشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے جاری تحریک میں بھی شریک ہیں،یہاں پر ایک اور اہم خبر یہ بھی ہے کہ کوسوو اور اسرائیل نے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے اور سفارتی رشتے قائم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے اور  کوسوو نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنا سفارتخانہ یروشلم میں قائم کرے گا۔
 اس فیصلے کو لے کر چند اسلامی ممالک  نے  انکو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم چند دانشور یہ بھی کہا کہ چونکہ سب نے  ہمیشہ سے کوسوو کو دبانے کی کوشش کی ہے مگر ان کی اسی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یورپ کے 26 ممالک اس ملک کو آزاد ملک تسلیم کرتے ہیں جب کہ پاکستان سمیت دیگر ایشیائی اسلامی ممالک بھی  کوسوو کو ایک آزاد اسلامی ملک مانتے ہیں جبکہ بھارت اسے آج بھی  اسے سربیا کا ایک صوبہ مانتا ہے آخر کیوں ؟  دوستوں کہا جاتا ہے کہ بھارتی حکومت کے سربیاسے انتہائی خوشگوار تعلقات ہے جبکہ بھارت اور سربیا کے مابین تجارتی معاہدے بھی پائے جاتے ہیں۔
 اس کے علاوہ نریندر مودی ذاتی طور پر سربیاکے حکام کو پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت اس سارے معاملے پر سربیا کا ساتھ دے رہی ہے ۔  وہاں کی گورنمنٹ کے مطابق آئندہ آنے والے چند سالوں میں تو وہ اپنی سکیورٹی کو کسی حد تک مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جس کے بعد کو سونامی یورپی اسلامی ملک  سربیہ اور دیگر شرپسند عناصر کی دھونس دھمکیوں میں نہیں آئے گا ۔
یورپی ممالک اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ یورپ میں اسلام کے پھیلنے کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں اور بڑی تعداد میں یورپی مسلمان ہو رہے ہیں جن میں خواتین کا تناسب سب سے زیادہ ہے، یورپ میں  چند ریاستں ایسی بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے ۔
 
 اپنا ڈھیر سارا خیال رکھیے گا اللہ نگہبان
WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں