Qush Tepa Canal project

کیا کوچ ٹیپا کنال پراجیکٹ افغانستان کو بدل کر رکھنے والا ہے؟

افغانستان میں دریافت ہونے والے لیتھیم کے ذخائر نے تمام دنیا کو وردہ حیرت میں ڈال رکھا ہے ۔ لیکن آج ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے بلکہ آج ہم اپ کو طالبان کے ایک ایسے میگا پراجیکٹ کے بارے میں بتائیں گے جس کی مدد سے نہ صرف وہ اپنے ملک کو دنیا کی بڑی طاقت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ اس کے ذریعے اب وہ تمام دنیا کو ایسا پراجیکٹ جو نہ صرف افغانستان میں ترقی کے نئے دروازے کھولے گا بلکہ ایشیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔

 ہم بات کر رہے ہیں افغانستان کے کوچ ٹیپا کنال پراجیکٹ کی جس کے بارے میں جان کر تمام دنیا حیران ہے کہ 50 سال تک جنگ کی تباہ کاری سے متاثر ہونے والا ملک آخر کیسے اتنے وسائل رکھتا ہے کہ وہ اتنے بڑے پراجیکٹ کو بغیر کسی کی مدد کے مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔

تو دوستوں برسوں سے غریبی بھوک اور جنگ میں گھرا افغانستان دنیا کی سب سے پہلی اور بڑی مصنوعی نہر بنانے جا رہا ہے۔ 285 کلومیٹر لمبی اور 500 فٹ چوڑی اس نہر کا نام تیپا کنال ہے جو افغانستان کی تقدیر بدل دے گی، اس نہر کو بنانے کے لیے افغانستان کی حکومت نے کسی سے کوئی مدد نہیں لی نہ ہی کوئی ایکوپمنٹ نہ ہی کوئی انجینئرنگ ٹیم۔

 چند دن پہلے تک تقریبا 100 کلومیٹر تک اس نہر کی کھدائی ہو چکی تھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کو اتنی بڑی نہر بنانے کی ضرورت کیوں پیش ائی۔ افغانستان کو ایک مکمل لینڈ لاک ملک کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کسی حصے کے ساتھ کوئی سمندر نہیں لگتا، افغانستان کو پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور چین کی سرحدوں نے گھیر رکھا ہے۔ یعنی افغانستان مکمل طور پر دوسرے ممالک کی سرحدوں کے درمیان ہے اور افغانستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جن کا 70 فیصد حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اس ملک کی 80 فیصد پانی کی سپلائی کوئے ہندو کش کے سلسلہ سے آتی ہے ۔

افغانستان میں چار بڑے دریا ہیں جن سے اسے پانی ملتا ہے لیکن یہ چاروں دریا افغانستان کے پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان ہمیشہ سے پانی کے مسائل کا شکار رہا ہے، افغانستان کے شمالی علاقہ جات پانی کے مسائل کا شکار رہا ہے افغانستان کے شمالی علاقہ جات پانی کی سخت کمی کا شکار ہیں اور امریکہ اور افغانستان کی جنگ کے بعد ان مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ 285 کلومیٹر کے فاصلے تک ایک مصنوعی نہر بنائی جائے جو ان تمام علاقوں کو سیراب کرے ، جو پانی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار سینکڑوں ایکڑ خشک اور بنجر رقبے کو لہلہاتے ہوئے سر سبز کھیتوں میں بدل دیا جائے گا ۔

دوستوں اِس زمین میں گندم، چاول اور دوسرے اناج اگائے جائیں گے۔ اگلے دو سالوں میں افغانستان اس کنال کی مدد سے نہ صرف اپنے ملک کی ضروریات کے لیے گندم اور دوسرا اناج اگا سکے گا بلکہ 50 فیصد گندم دوسرے ملکوں کو ایکسپورٹ کرنے کے قابل بھی ہو جائے گا۔ دوستوں یہ پراجیکٹ مارچ 2022 میں شروع ہوا تھا اور امید کی جاتی ہے کہ جس تیز رفتار سے کام جاری ہے یہ پراجیکٹ 2025 تک مکمل ہو جائے گا ۔

جب یہ پراجیکٹ شروع ہوا تو لوگوں کا کہنا تھا کہ افغانی انجینیئر ٹیکنالوجی میں اتنی مہارت نہیں نہیں رکھتے کہ وہ اتنے بڑے پراجیکٹ کو کمپلیٹ کر سکیں لیکن آج تمام دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ افغانی انجینیئر کس مہارت اور منصوبہ بندی اور تیزی کے ساتھ اس پراجیکٹ کو کمپلیٹ کر رہے ہیں اس پراجیکٹ کو تین فیز میں ڈیوائڈ کیا گیا ہے پہلے اور دوسرے فیز میں اس کینال کی کھدائی کی جائے گی جو کہ 100 کلومیٹر تک ہو چکی ہے، اس مقصد کے لیے 200 لوکل ٹھیکے داروں کو منتخب کیا گیا اور 7 ہزار گرینوں اور بلڈروزوں کو کھدائی کے کام کے لیے منگوایا گیا ہے۔

 حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بلڈوزر اور دوسری مشینری بڑے ملکوں سے امپورٹ کی ہوئی جدید مشینری نہیں ہے بلکہ یہ بلڈوزر اور کرینیں 1960 کی دہائی کی ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ بڑی مہارت سے اس مشینری کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تمام کام ایک منصوبہ بندی اور ترتیب سے کیا جا رہا ہے تمام ٹرک ایک لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور انجینیئر کا اشارہ ملنے پر کرینے ان میں مٹی ڈال دیتی ہیں جب انجینیئر اوکے کا اشارہ کرتا ہے تو ٹرک اس مٹی کو لے کر چل پڑتے ہیں۔

 اتنی زیادہ مٹی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن افغانی انجینیئر نے اس کا بہت خوبصورت حل تلاش کیا، انہوں نے اس مٹی کو نہر کی باؤنڈری پر ڈالنا شروع کر دیا انہوں نے نہر کی باؤنڈری کسی کنکریٹ یا سیمنٹ سے بنانے کی بجائے نہر سے نکالی گئی مٹی سے بنانے کی تجویز پیش کی جس کے دو فائدے تھے ایک تو اس مٹی کو اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی جنجھٹ سے جان چھوٹ گئی تو دوسری طرف کنکریٹ کی باؤنڈری کے اضافی خرچے سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس مٹی کو باؤنڈری میں ڈالنے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ پتھریلی زمین کی بجائے مٹی کی باؤنڈری اضافی پانی کو جذب کر لے گی اور اس باؤنڈری پر سبزیوں کی فصل کاشت کی جائے گی۔

 دنیا کو یہ دیکھ کر اور بھی حیرانی ہوئی کہ ایک طرف تو نہر کی کھدائی کا کام جاری ہے تو دوسری طرف نہر کے آس پاس سبزیاں اور درخت لگانے کا کام بھی جاری ہو چکا ہے اس کینال کا کام مکمل ہونے کے بعد واٹر پائپ لائنوں کے ذریعے پانچ کلومیٹر کے فاصلے تک اس کا پانی پہنچایا جائے گا ۔ ایک بہت حیران کن چیز جو دنیا کے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اس نہر کے پاس بنے ٹیوب ویل اور واٹر پمپس کو چلانے کے لیے بجلی کی بجائے سولر سسٹم لگائے گئے ہیں جس سے بجلی کے اضافی خرچے سے بچا جا سکتا ہے۔

 اس پراجیکٹ کو لے کر مختلف لوگوں نے بہت پروپگنڈا کیا کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ افغان انجینیئرز میں اتنی مہارت اور ٹیلنٹ نہیں ہے کہ وہ ایسے پراجیکٹ کو ہینڈل کر سکیں تو دوسری طرف کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانی ٹھیکے داروں کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی جا رہی، لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ٹھیکے داروں کو وقت پر پیسے نہ ملتے تو اتنی تیز رفتاری سے کام کبھی مکمل نہ ہوتا یہ پراجیکٹ افغانستان میں ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کی مدد سے طالبان خشک اور بنجر علاقوں کو سرسبز اور لیلاتے ہوئے کھیتوں میں تبدیل کر دیں گے ۔

افغانستان چند سالوں میں بھوک اور افلاس سے مکمل طور پر خلاصی حاصل کر لے گا ان کے مقامی لوگ بھی حکومت کے اس اقدام سے بہت زیادہ خوش ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے افغانستان دوسرے ممالک کو بھی بڑی مقدار میں اناج ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہو جاے گا جس سے کثیر تعداد میں زر مبادلہ کمایا جائے گا جو کہ افغانستان کے دیگر بڑے پراجیکٹس پر خرچ کیا جائے گا۔

 اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر اسی تیز رفتاری سے افغانستان میں کام ہوتا رہا تو امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے چند سالوں میں افغانستان ایک بڑے زرعی ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے ائے گا ، دنیا کے تمام وہ ممالک جہاں اناج کی فصلیں کاشت نہیں کی جاتی وہ افغانستان سے اناج حاصل کرنے پر مجبور ہوں گے اور چار سالوں میں افغانستان دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہمراہ کھڑا ہوا نظر آئے گا ۔

ایک طاقتور اور معاشی طور پر خود کفیل ملک ہونے کی وجہ سے عالم اسلام کے لیے بھی معاون اور مددگار ثابت ہوگا دنیا دیکھے گی کہ کیسے طالبان جنگ سے جلتے ہوئے شکستہ حال افغانستان کو خوبصورت اور سرسبز و شاداب لیلاتے ہوئے افغانستان میں بدل دیں گے ۔ افغانی طالبان نے نہ تو جنگ کے بعد اپنے حالات کا رونا رویا اور نہ کشکول لے کر ائی ایم ایف کے پاس ایک ارب ڈالر کا قرضہ لینے پہنچے بلکہ انہوں نے مردانہ وار اپنے حالات کا مقابلہ کیا اور اپنے موجودہ وسائل کو اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

 انہوں نے نہ تو ماڈرن اور ترقی یافتہ ہونے کے لیے دین سے دوری اختیار کی اور نہ ہی کرپشن کے ذریعے بیرون ممالک میں اپنے اکاؤنٹس کھولے بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے کم وسائل کے ساتھ انتہائی قلیل مدت میں اپنی عوام کی بھلائی کے لیے کام کیا، ہم جہاں ایک طرف افغانی انجینیئرز کو مہارت اور جدت سے پرانی مشینری کے ساتھ منظم طریقے سے کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف نماز کے وقت انجینیئرز اور کاریگروں کو تپتے ہوئے بنجر علاقوں میں اپنے خدا کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں۔

 سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو بے بہا قیمتی خزانوں سے نوازا ہے تو کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یا پھر افرادی قوت کی، پھر ہم کیوں کشکول لے کر ائی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں۔

 بقول علامہ اقبال کہ خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت خود بدلنے کا ۔

یہ پیشکش آپکو کیسی لگی ، کمنٹ باکس میں ضرور لکھیں ۔

WhatsApp Group Join Now
Telegram Group Join Now
Instagram Group Join Now

اپنا تبصرہ بھیجیں