طب یونانی Hakeem Ajmal Khanپر اگر چہ بوعلی سینا اور امام رازی نے بے پناہ احسانات کیے ہیں ۔ اور اپنے خون جگر سے اس کھیت کو سینچا ہے، جس کی فصل آج یورپ بڑی مستعدی سے فروخت کررہا ہے۔ بھلے ہی اس نے اس کو نئے زاویے اور نئے رنگ سے ہم آہنگ کر دیا ہو۔
ہندوستان کی سرزمین پر بھی ایسے باہنر اور با کمال لوگ پیدا ہوئے، جن سے عالم انسانیت نے فائدہ اٹھایااور مسلسل مستفید ہورہی ہے، خواہ وہ علم و ادب کا میدان ہو یا طب صحت کا۔ بعض لوگ تو جامع الصفات ہوتے ہیں، وہ بہ یک وقت سبھی محاذوں پر کام کرتے ہیں اور بڑی مہارت سے کرتے ہیں۔ ایسی ھی شخصیت تھی ہندوستان کے نامور ادیب، شاعر، مجلد آزادی، مفکر ، طبیب اعظم، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کیا۔
طب یونانی پر گفتگو ہوئی ۔ ڈاکٹر بانڈطب یونانی کو وزن نہ دیتے تھے۔ آخر انھوں نےحکیم صاحب سے ایک مریض کو رکھ کر مرض کی تشخیص کرنے کو کہا۔ حکیم صاحب نے اس کوبغور دیکھا اور کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصے میں کہنہ زخم ہے، جس کے باعث درد کی تکلیف ہے۔ یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بانڈ نے اپنے تمام آلات ومشینوں کے ذریعے مرض کی تشخیص کی تھی۔
جب کہ حکیم صاحب نے صرف نبض پر ہاتھ رکھا تھا۔ ڈاکٹر بانڈ کو اپنی تشخیص مکمل عتماد تھا۔ اس اعتماد کے نشے میں انھوں نے حکیم صاحب سے اگلے دن اس مریض کے آپریشن کے وقت آنے کی درخواست کی اور یہ بھی اعلان کردیا کہ یہطب یونانی اور انگریزی طب کا امتحان ہے ۔
اس کے علاوہ بیواؤں اور ناداروں کو وظائف دیے۔ اسلای اداروں، ندوه، دارالمصنفین، دائرة المعارف و غیره و معقول اعانتیں عطا کیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہر طرح سرپرستی کی۔ بہت دنوں تک اپنی جیب خاص سے اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اس راہ میں اپنی ہیرے کی انگوٹھی فروخت کر ڈالی۔
حکیم اجمل خان نے مسندطبابت پر بیٹھ کر حیرت انگیز علاج کے۔ کوئی بھی مریض ان کے مطب سے بہ غیر شفا کے واپس نہ ہوا۔ ایک غریب لکڑہارے سے لے کر نوابوں، انگریز افسروں، مجاہدین آزادی اور کشمیر کی مہارانی تک کا علاج آپ نے کیا اور اللہ کے فضل سے فوز وفلاح حاصل کی۔
آپ کے علاج کی ایک خوبی ہی تھی کہ آپ مریض کی حیثیت سے نسخہ لکھتے تھے۔ غربا کے لیے آپ بہت معمولی قیمت کے نسخہ لکھا کرتے ،مگر وہ بھی کارگر ہوتے۔ آپ کے علاج کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ آپ دوا کے بجائے حسن تدبیر سے علاج کرتے۔ ان کے نادر تجربات اور بیش بہا نسخوں سے پوری دنیاآج بھی مستفید ہورہی ہے۔
طبی اور سماجی خدمات کے علاوہ آپ نے سیاسی میدان میں بھی ملک و قوم کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں چلنے والی تحریک آزادی کا آپ نے بھر پور تعاون کیا۔ انگریزوں سے عدم تعاون کی تحریک کے جواب میں آپ نے برٹش گورنمنٹ کے دیے ہوئے خطابات کو واپس کردیا۔ قوم نے آپ کے اس ایثار کودیکھتے ہوئے آپ کومسیح الملک ‘‘ کا خطاب عطا کیا، جو آپ کے نام کا جز بن گیا۔
ملک وقوم کا یہ درخشندہ ستاره29 دسمبر 1927ء کو رام پور میں غروب ہوگیا اور پوری قوم تیم ہوکر رہ گئی ۔ آپ کی وفات پر مہاتما گاندھی نے اس طرح خراج عقیدت پیش کیا:
حکیم اجمل خاں کی موت نے مجھ سے صرف ایک دانشور اور ثابت قدم شریک کار کو نہیں چھین لیا، بلکہ میں نے ایک ایسا دوست بھی کھو دیا جس پر میں ضرورت کے وقت بھر پور اعتماد کر سکتا تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کے معاملے میں وہ میرے مشیر اور رہنما تھے۔ وہ انسانی فطرت کو خوب پہچانتے تھے اور اس صلاحیت نےانھیں صحیح قوت فیصلہ عطا کی تھی۔ وہ ایک خیالی قسم کے انسان نہ تھے، بلکہ وہ اپنےخوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی پوری قوت رکھتے تھے۔
ان کی موت پر پوری قوم سوگواری تھی ۔ شاید ہی کوئی آنکھ ہو جونم نہ ہوئی ہو، کوئی دل ہو، جس نے دردکی آہ نہ بھری ہو۔ خراج عقیدت اور تعزیت کے لیے رہبران قوم کے پاس الفاظ نہ تھے۔وہ ہندومسلم دونوں کے دل میں رہتے تھے۔
سابق صدر جمہوریہ ہند ،ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مرحوم ان کو ان الفاظ میں خران عقیدت پیش کرتے ہیں:
جولوگ حکیم اجمل خاںسے اپنے مرض کا نسخہ لینا چاہتے ہیں، جو اپنی ملازمت کی سفارش کے خواہاں ہیں جنھیں اپنے عزیز کی شادی کے لیے روپیے درکار ہے، جن بیواؤں کی روٹی ان کی توجہ سے چلتی تھی، جن یتیموں اورناداروں کی تعلیم کے لیے ان کے خزانے سے رقم ملتی تھی، ان کی تعداد سیکڑوں، ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں تک بھی ہے، ان کا اجمل خاں رخصت ہو گیا مگر طب قدیم کا خانه مجررطبی تعلیم کا رہنما آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا ۔